Tafseer-e-Mazhari - Al-Anfaal : 69
فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَیِّبًا١ۖ٘ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
فَكُلُوْا : پس کھاؤ مِمَّا : اس سے جو غَنِمْتُمْ : تمہیں غنیمت میں ملا حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : پاک وَّاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
تو جو مالِ غنیمت تمہیں ملا ہے اسے کھاؤ (کہ وہ تمہارے لیے) حلال طیب رہے اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے
فکلوا مما غنمتم حلالاً طیبًا واتقوا اللہ ان اللہ غفور رحیم۔ سو جو کچھ تم نے لے لیا ہے ‘ اس کو حلال پاک سمجھ کر کھاؤ اور اللہ (کے حکم کی خلاف ورزی) سے ڈرتے رہو۔ بلاشبہ اللہ بڑا بخشنے والا ‘ بڑی رحمت والا ہے۔ یعنی تم نے جو فدیہ اور مال غنیمت لے لیا ہے ‘ اب اللہ نے اس کو تمہارے لئے مباح کردیا (اب اس کو کھا سکتے ہو) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے چھ خصوصیات عطا فرما کر دوسرے انبیاء پر برتری دی گئی ہے۔ ان چھ خصوصیات میں آپ نے ایک خصوصیت یہ ذکر فرمائی کہ میرے لئے مال غنیمت حلال کیا گیا۔ رواہ الترمذی عن ابی ہریرہ۔ طبرانی نے صحیح سند سے حضرت سائب بن یزید کی روایت سے یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے : مجھے دوسرے انبیاء پر فضیلت پانچ خصوصیات دے کر عطا کی گئی ہے اور میرے لئے مال غنیمت حلال کردیا گیا ‘ جبکہ مجھ سے پہلے کسی کیلئے حلال نہیں کیا گیا۔ بیہقی نے صحیح سند سے بروایت حضرت ابو امامہ یہ حدیث نقل کی ہے لیکن اس میں پانچ کی جگہ چار کا لفظ ہے۔ طبرانی نے حضرت ابو درداء کی روایت سے بھی اس کو نقل کیا ہے۔ بغوی نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہم سے پہلے کسی کیلئے مال غنیمت حلال نہیں کیا گیا۔ اللہ نے ہماری کمزوری اور ناداری کو دیکھ کر ہمارے لئے اس کو پاک بنا دیا۔ بغوی نے لکھا ہے : ہم سے حضرت جابر کی روایت سے بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے لئے مال غنیمت حلال کردیا گیا اور مجھ سے پہلے کسی کیلئے حلال نہیں کیا گیا۔ وا اللہ اعلم بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت عباس بن عبدالمطلب بھی بدر کے دن گرفتار کر لئے گئے تھے۔ آپ ان دس میں سے ایک تھے جنہوں نے بدر والے کافروں کے کھانے کا ذمہ لیا تھا۔ خاص بدر کے دن سب (قریش اور دوسرے کافروں) کو کھانا کھلانے کی آپ کی باری تھی۔ آپ بیس اوقیہ سونا کھانا کھلانے کیلئے لے کر آئے تھے۔ جب بدر کے دن جنگ ہوگئی تو وہ سونا حضرت عباس ؓ کے پاس رہ گیا اور جب گرفتار ہوئے تو وہ سونا بھی آپ کے پاس ہی تھا۔ آپ نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ یہ بیس اوقیہ سونا میرے زر فدیہ میں محسوب کرلیا جائے۔ حضور ﷺ نے انکار کردیا اور فرمایا : جو چیز تم (اسلام کے خلاف) کام میں لانے کیلئے لے کر نکلے ہو ‘ میں اس کو تمہارے لئے نہیں چھوڑوں گا (یعنی زر فدیہ میں شمار نہیں کروں گا) حضرت عباس کو مجبور کیا گیا کہ اپنے دونوں بھتیجوں عقیل بن ابی طالب اور نوفل بن حارث کا فدیہ ادا کریں۔ حضرت عباس نے عرض کیا : محمد ﷺ تم نے مجھے ایسا کر کے چھوڑا ہے کہ جب تک زندہ رہوں ‘ قریش کے سامنے بھیک مانگتا پھروں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تو وہ سونا کیا ہو 1 جو مکہ سے چلتے وقت تم اُمّ الفضل کو دے آئے تھے اور یہ کہہ آئے تھے کہ معلوم نہیں مجھے کیا پیش آئے ؟ اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو یہ سونا تمہارا اور عبد اللہ اور عبید اللہ اور فضل اور قثم کیلئے موجود ہے۔ یعنی حضرت عباس کے چاروں بیٹوں کیلئے۔ حضرت عباس نے عرض کیا : آپ کو کس نے بتایا ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : مجھے میرے رب نے بتایا۔ حضرت عباس فوراً بول اٹھے : اَشْھَدُ اَنْ لَآ اِلٰہَ الا اللّٰہُ واشھد انک عبد ورسولہ سوائے اللہ کے اس کے کوئی واقف نہ تھا۔ ابن جریر ‘ ابن المنذر ‘ ابن ابی حاتم ‘ بیہقی ‘ ابو نعیم ‘ اسحاق بن راہویہ ‘ طبرانی اور ابو الشیخ نے حضرت ابن عباس کی روایت سے اور ابن اسحاق اور ابونعیم نے حضرت جابر بن عبد اللہ کے حوالہ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بدر کے دن ستر قیدی گرفتار کئے ‘ ان میں حضرت عباس اور عقیل بھی تھے اور ان پر چالیس اوقیہ سونا زرفدیہ مقرر کیا۔ بیہقی نے اسماعیل بن عبدالرحمن کے حوالہ سے لکھا ہے کہ حضرت عباس اور عقیل اور نوفل اور ان کے بھائی کا زرفدیہ چار سو دینار تھا۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ بدر کے ہر قیدی کے فدیہ سے زیادہ حضرت عباس کا فدیہ تھا۔ تنہا آپ کا زرفدیہ ایک سو اوقیہ سونا تھا۔ ابو داؤد نے حضرت ابن عباس کے حوالہ سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بدر کے کافروں کا فدیہ (فی کس) چار سو مقرر کیا تھا۔ حضرت عباس نے عرض کیا : میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ مال کیا ہوا جو تم اُمّ الفضل کو دے کر آئے تھے اور یہ کہہ کر آئے تھے کہ اس سفر میں اگر مجھ پر کوئی افتاد پڑے تو یہ میرے بیٹوں فضل اور عبد اللہ اور قثم کا ہے۔ حضرت عبد اللہ نے عرض کیا : وا اللہ ! میں یقین کرتا ہوں کہ آپ بلاشک اللہ کے رسول ہیں۔ اس چیز سے تو سوائے میرے اور اُمّ الفضل کے اور کوئی واقف ہی نہ تھا۔ حضرت سعید بن جبیر کا بیان ہے کہ حضرت عباس پر چار سو اوقیہ (زر) فدیہ مقرر کیا تھا۔ کچھ لوگوں نے چالیس کہا ہے اور عقیل پر اسّی اوقیہ۔ حضرت عباس نے عرض کیا : آپ نے مجھے عمر بھر کیلئے قریش میں سب سے محتاج کر کے چھوڑ دیا۔ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top