Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Anfaal : 7
وَ اِذْ یَعِدُكُمُ اللّٰهُ اِحْدَى الطَّآئِفَتَیْنِ اَنَّهَا لَكُمْ وَ تَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَ یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَ یَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِیْنَۙ
وَاِذْ
: اور جب
يَعِدُكُمُ
: تمہیں وعدہ دیتا تھا
اللّٰهُ
: اللہ
اِحْدَى
: ایک کا
الطَّآئِفَتَيْنِ
: دو گروہ
اَنَّهَا
: کہ وہ
لَكُمْ
: تمہارے لیے
وَتَوَدُّوْنَ
: اور چاہتے تھے
اَنَّ
: کہ
غَيْرَ
: بغیر
ذَاتِ الشَّوْكَةِ
: کانٹے والا
تَكُوْنُ
: ہو
لَكُمْ
: تمہارے لیے
وَ
: اور
يُرِيْدُ
: چاہتا تھا
اللّٰهُ
: اللہ
اَنْ
: کہ
يُّحِقَّ
: ثابت کردے
الْحَقَّ
: حق
بِكَلِمٰتِهٖ
: اپنے کلمات سے
وَيَقْطَعَ
: اور کاٹ دے
دَابِرَ
: جڑ
الْكٰفِرِيْنَ
: کافر (جمع)
اور (اس وقت کو یاد کرو) جب خدا تم سے وعدہ کرتا تھا کہ (ابوسفیان اور ابوجہل کے) دو گروہوں میں سے ایک گروہ تمہارا (مسخر) ہوجائے گا۔ اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بے (شان و) شوکت (یعنی بے ہتھیار ہے) وہ تمہارے ہاتھ آجائے اور خدا چاہتا تھا کہ اپنے فرمان سے حق کو قائم رکھے اور کافروں کی جڑ کاٹ کر (پھینک) دے
واذیعدکم اللہ احدی الطائفتین انھا لکم وتودون ان غیر ذات الشوکۃ تکون لکم ویریدا اللہ ان یحق الحق بکلمتہ ویقطع دابر الکفرین : اور (تم لوگ اس وقت کو یاد کرو) جب کہ اللہ تعالیٰ دو جماعتوں میں سے ایک جماعت کا تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ وہ تمہارے ہاتھ آجائے گی اور تم اس تمنا میں تھے کہ غیر مسلح جماعت (یعنی قافلہ) تمہارے ہاتھ آجائے اور اللہ کو یہ منظور تھا کہ اپنے احکام سے حق کا حق ہونا (عملاً ) ثابت کر دے اور ان کافروں کی جڑ کاٹ دے۔ وَاِذْیَعِدُکُمُ اللّٰہُ اِحْدَی الطَّآءِفَتَیْنَ اَنَّھَالَکُمْ- اِذْ کا تعلق محذوف فعل سے ہے ‘ یعنی اس وقت کا واقعہ یاد کرو۔ کُمْ ‘ یَعِدُ کا پہلا مفعول اور احدی الطائفتین دوسرا مفعول ہے اور اَنَّھَالَکُمْ ‘ اِحْدٰی سے بدل ہے۔ وَتَوَدُّوْنَ ان غیر ذات الشوکۃ اور تم دل سے چاہتے تھے کہ غیر مسلح ‘ بےطاقت گروہ یعنی قافلہ تمہارے ہاتھ لگ جائے تاکہ بغیر جنگ کے کثیر مال مل جائے۔ شوکۃ کا معنی ہے طاقت ‘ قوت ‘ تیزی۔ یہ لفظ شوک سے مستعار ہے ‘ شوککا معنی ہے کانٹا ‘ ہتھیار۔ ابن جریر اور ابن المنذر نے حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے کہ اللہ نے دو گروہوں میں سے ایک گروہ کا وعدہ کیا تھا۔ لوگ چاہتے تھے کہ قافلہ ان کے ہاتھ لگ جائے کیونکہ قافلہ والوں میں زیادہ طاقت نہ تھی۔ جب قافلہ نکل گیا اور ہاتھ نہ آیا تو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو لے کر قریش کے مقابلہ کیلئے جانا چاہا۔ قریش میں چونکہ طاقت زیادہ تھی ‘ اسلئے (بعض) مسلمانوں کو یہ بات ناپسند ہوئی۔ ویرید اللہ ان یحق الحق اور اللہ حق کو ظاہر کرنا اور سربلند کرنا چاہتا تھا۔ بکلماتہ یعنی تم کو جہاد اور جنگ کا حکم دے کر ‘ یا فرشتوں کو تمہاری مدد کے احکام دے کر۔ بعض کے نزدیک کلمات سے مراد وہ وعدہ ہے جو اللہ نے دین کو غالب اور معزز کرنے کا پہلے کیا تھا۔ وَیَقْطَعَ دَابِرِ الْکَافِرِیْنَ اور کافروں کی بیخ کنی کر دے کہ عرب میں کوئی کافر بغیر اسلام لانے کے نہ رہے ‘ اگر رہے تو قتل کردیا جائے۔ مطلب یہ کہ تم بغیر شدت و تکلیف کے مال کے خواستگار تھے اور اللہ چاہتا تھا کہ دین سربلند ہو ‘ حق ظاہر اور تم کو دونوں جہان میں کامیابی حاصل ہو۔ لیحق الحق اس کا تعلق محذوف فعل سے ہے ‘ یعنی جو کچھ کیا ‘ اسلئے کیا کہ اسلام کو (عملاً ) ثابت کر دے ‘ یا یقطع سے تعلق ہے ‘ یعنی اللہ کافروں کی جڑ کاٹنا اسلئے چاہتا تھا کہ احقاق حق کر دے۔ ویبطل الباطل اور کفر کو باطل کر دے (بظاہر کلام میں تکرار نظر آرہی ہے کیونکہ پہلے بھی یحق الحق فرمایا اور پھر لیحق الحق فرمایا ‘ اسی طرح پہلے یقطع دابر الکافرین فرمایا اور پھر یبطل الباطل فرمایا) لیکن حقیقت میں تکرار نہیں ہے ‘ اوّل جملہ تو صرف بیان مقصد کیلئے ہے ‘ اس کی غرض تو یہ ہے کہ اللہ کے مقصد میں اور مسلمانوں کے مقصد میں جو فرق تھا ‘ اس کو واضح کردیا جائے اور دوبارہ ذکر کرنے کی علت یہ ہے کہ وہ سبب واضح کردیا جائے جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کو طاقتور لشکر سے مقابلہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ وَلَوْ کرہ المجرمون مجرموں سے مراد ہیں مشرک۔ کَرِہَ کا مفعول محذوف ہے ‘ یعنی مشرک خواہ اس بات کو پسند نہ کریں۔ قصۂ بدر کا تکملہ ذفران سے روانہ ہو کر رسول اللہ ﷺ ان پہاڑیوں کے راستہ سے جن کو اصافر کہا جاتا ہے ‘ آگے چلے (اصافر کی پہاڑیاں جحفہ کے قریب مکہ کو جاتے ہوئے دائیں جانب کو واقع ہیں) پھر نیچے اتر کر ایک بستی کی جانب جس کا نام دیہ ہے ‘ رخ کیا اور حنان کو دائیں جانب چھوڑ دیا۔ حنان ایک بڑے پہاڑ کی طرح ریت کا ٹیلہ تھا۔ پھر بدر کے قریب پہنچ کر پڑاؤ ڈال دیا اور خود حضرت ابوبکر کو ساتھ لے کر ایک عرب بوڑھے کے پاس پہنچے اور اس سے قریش کی اور محمد کی اور محمد کے ساتھیوں کی خبریں دریافت کیں۔ شیخ بولا : مجھے اطلاع ملی ہے کہ محمد ﷺ اور اس کے ساتھی فلاں فلاں دن روانہ ہوگئے ہیں ‘ اگر اطلاع دینے والے نے مجھے صحیح اطلاع دی ہے تو آج وہ فلاں جگہ ہوں گے۔ جس جگہ حضور ﷺ نے پڑاؤ ڈالا تھا ‘ شیخ نے اسی جگہ کا نام لیا۔ اور مجھے یہ خبر بھی ملی ہے کہ قریش فلاں دن روانہ ہوگئے ہیں ‘ اگر خبر دینے والے نے مجھے صحیح خبر دی ہے تو آج قریش فلاں جگہ ہوں گے۔ شیخ نے اسی جگہ کا نام لیا جہاں قریش موجود تھے۔ پھر کہنے لگا : تم دونوں کون ہو ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : ہم ماء سے ہیں (یہ لفظ توریہ کے طور پر استعمال فرمایا ‘ بوڑھا تو سمجھا ہوگا کہ بنی ماء السماء جو عرب کا مشہور قبیلہ تھا ‘ اس سے ان کا تعلق قرابت ہے اور حضور ﷺ کی مراد یہ تھی کہ ماء دافق یعنی کودتے ہوئے پانی سے ہم دونوں پیدا ہوئے ہیں) ۔ ابن اسحاق کا بیان ہے : پھر رسول اللہ ﷺ اپنے ساتھیوں کے پاس لوٹ آئے۔ شام ہوئی تو علی بن ابی طالب اور زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص کو صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ بدر کے چشمہ کی طرف خیر خبر لینے کیلئے بھیجا۔ ان لوگوں کو قریش کے کچھ سقے ملے جن میں بنی الحجاج کا غلام اسلم اور بنی العاص بن سعید کا غلام ابویسار بھی تھا۔ یہ حضرات دونوں کو لے آئے اور ان سے کچھ سوالات کئے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ دونوں نے جواب دیا : ہم قریش کے خدمت گار ہیں ‘ انہوں نے ہم کو پانی بھرنے بھیجا تھا۔ مسلمانوں کو یہ جواب ناگوار گذرا ‘ ان کا خیال تھا کہ یہ دونوں ابوسفیان کے آدمی ہیں (اور قافلہ کہیں قریب ہی ہے) اسلئے ان کو مارنے لگے۔ جب خوب مارا تو انہوں نے کہہ دیا کہ ہم ابوسفیان کے آدمی ہیں۔ صحابہ نے ان کو چھوڑ دیا۔ اس عرصہ میں حضور ﷺ نے رکوع کیا اور دو سجدے کر کے سلام پھیر دیا اور فرمایا : جب انہوں نے تم سے سچی بات کہی تھی تو تم نے ان کو مارا اور جب جھوٹی بات کہی تو تم نے ان کو چھوڑ دیا۔ انہوں نے سچ کہا تھا۔ خدا کی قسم ! یہ قریش کے آدمی ہیں (پھر دونوں غلاموں سے فرمایا :) مجھے قریش کے متعلق بتاؤ۔ دونوں نے عرض کیا : وہ اس سامنے والے ٹیلہ کے اس پرے کے اونچے مقام پر اور ریت کے ٹیلہ پر فروکش ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : کتنے ہیں ؟ دونوں نے عرض کیا : بہت ہیں۔ فرمایا : گنتی میں کتنے ہیں ؟ بولے : یہ تو ہمیں معلوم نہیں۔ فرمایا : کتنے (اونٹ) ذبح کرتے ہیں ؟ کہنے لگے : ایک دن نو اور ایک دن دس۔ فرمایا : تو نو سو اور ایک ہزار کے درمیان ہیں۔ پھر فرمایا : ان میں سرداران کون کون ہیں ؟ دونوں نے عرض کیا : ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ اور شیبہ ‘ ابوالبختری بن ہشام ‘ حکیم بن حزام ‘ نوفل بن خویلد ‘ حارث بن عامر ‘ طعیمہ بن عدی ‘ نضر بن حارث ‘ ربیعۃ الاسود ‘ ابوجہل بن ہشام ‘ امیہ بن خلف ‘ حجاج کے دونوں بیٹے بنیہ اور منبہ ‘ سہل بن عمرو اور عمرو بن عبدو۔ حضور ﷺ نے فرمایا : یہ مکہ کے جگر پارے (یعنی خلاصہ اور مکھن) ہیں جن کو مکہ نے باہر نکالا ہے۔ ابن عابد کا بیان ہے کہ جحفہ تک پہنچنے میں راستہ چلنے اور درمیانی قیام میں کل دس دن صرف ہوئے۔ بسیس بن عمرو اور عدی بن ابی الزغباء بدر کی طرف (تلاش احوال کیلئے) گئے ہوئے تھے ‘ پانی کے قریب ایک ٹیلہ پر یہ دونوں جا کر ٹھہرے ‘ پھر مشکیزے لے کر پانی بھرنے چل دئیے۔ پانی پر مجدی بن عمر جہنی موجود تھا اور وہاں جو لوگ مقیم تھے ‘ ان کی دو باندیاں بھی موجود تھیں۔ ایک باندی دوسری کو پکڑے ہوئے تھی (اور اپنا قرض مانگ رہی تھی) جس کو وہ چمٹی ہوئی تھی ‘ اس نے کہا : قافلہ کل یا پرسوں آجائے گا ‘ میں قافلہ والوں کا کچھ کام کاج کر کے کچھ مزدوری کروں گی تو اس سے تیرا قرض ادا کر دوں گی۔ مجدی بولا : یہ سچ کہہ رہی ہے۔ عدی اور بسیس یہ بات سن کر اونٹ پر بیٹھ کر چلے آئے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر جو کچھ سنا تھا ‘ عرض کردیا۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ ابو سفیان قافلہ کو لے کر آیا ‘ مدینہ کے قریب پہنچا تو بہت خوف زدہ تھا۔ ضمضم بن عمر اور نضیر کی واپسی میں بھی تاخیر ہوگئی تھی۔ غرض ڈرتے ڈرتے پانی پر پہنچا ‘ پانی پر مجدی بن عمرو جہنی سے ملاقات ہوئی۔ ابو سفیان نے مجدی سے پوچھا : کیا تم کو (یہاں) کچھ سن گن ملی ہے ؟ مجدی نے کہا : اور تو کسی اجنبی کو میں نے دیکھا نہیں ‘ صرف اتنی بات دیکھی کہ دو سوار آئے ‘ انہوں نے اس ٹیلہ کے پاس اونٹ بٹھایا اور اتر کر مشکیزوں میں پانی لیا اور چل دئیے۔ ابو سفیان ‘ مجدی سے یہ بات سن کر ٹیلہ کے پاس ان کی فرودگاہ پر پہنچا اور اونٹ کی مینگنی اٹھا کر اس کو توڑا ‘ اس کے اندر سے کھجور کی گٹھلی برآمد ہوئی۔ کہنے لگا : خدا کی قسم ! یہ تو یثرب والوں کا چارہ ہے (یعنی اونٹوں کو گٹھلیاں و ہی کھلاتے ہیں ‘ اس سے معلوم ہوا کہ وہ سوار مدینہ کے تھے) فوراً اپنے ساتھیوں کے پاس لوٹ آیا اور قافلہ کا رخ موڑ کر بدر کو بائیں چھوڑ کر ساحل کے راستہ پر پڑگیا اور تعاقب کرنے والوں کے ڈر سے سرپٹ رات دن چلتا رہا اور جب دیکھا کہ اب میں قافلہ کو بچا لایا تو قریش کے پاس قیس بن امراء القیس کو یہ پیام دے کر بھیجا کہ تم اپنے قافلہ کی اور آدمیوں کی جانوں و مالوں کی حفاطت کیلئے مکہ سے نکلے تھے ‘ اب چونکہ اللہ نے سب کو بچا دیا ہے ‘ اسلئے لوٹ آؤ۔ قریش کو یہ اطلاع اس وقت ملی جب یہ لوگ جحفہ میں تھے۔ ابو جہل کہنے لگا : خدا کی قسم ! بدر پر اترے بغیر ہم نہیں لوٹیں گے۔ بدر پر ہر سال عرب کا ایک تہوار ہوتا اور بازار لگتا تھا ‘ یہ زمانہ تہوار ہی کا تھا۔ ہم تین روز بدر میں قیام کریں گے ‘ اونٹ ذبح کریں گے ‘ کھانا کھلائیں گے ‘ شرابیں پلائیں گے ‘ گانے والیوں کا گانا سنیں گے۔ عرب ہماری یہ خبریں سنیں گے اور ہمارے آ پہنچنے کی اطلاع ہوگی تو اس کے بعد ہمیشہ ہم سے ہیبت کھائیں گے ‘ ان پر ہمارا رعب پڑے گا۔ اہل رائے پہلے ہی مکہ سے نکلنے کے مخالف تھے اور ایک ‘ دوسرے کے پاس یہی مشورہ دینے گیا تھا۔ حارث بن عامر ‘ امیہ بن خلف ‘ ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ اور شیبہ ‘ حکیم بن حزام ‘ ابو البختری ‘ علی بن امیہ بن خلف اور ابو العاص سب ہی جانے سے جھجک رہے تھے لیکن ابوجہل نے سب کو بزدل ہوجانے کی عار دلائی اور رائے پلٹ دی تھی۔ ابوجہل کی تائید عقبہ بن ابی معیط ‘ نضر بن حارث اور حارث بن مکدہ نے کی تھی۔ بالآخر سب کا جانے پر اتفاق ہوگیا تھا۔ اخنس بن شریف نے جو بنی زہرہ کا حلیف تھا ‘ بنی زہرہ سے کہا : تم لوگ محزمہ بن نفل کی جان مال کی حفاظت کیلئے نکلے تھے ‘ وہ تمہارا آدمی تھا۔ اب اللہ نے تمہارا مال بھی بچا دیا اور محزمہ بن نوفل کو بھی بچا دیا ‘ اسلئے مکہ کو لوٹ جاؤ۔ بنی زہرہ کی تعداد تقریباً ایک سو اور بعض روایات میں تین سو تھی۔ اخنس کی بات سن کر سب لوٹ گئے۔ بنی زہرہ کے صرف دو آدمی یعنی مسلم بن شہاب زہری کے چچا واپس نہیں گئے اور بدر کی لڑائی میں بحالت کفر مارے گئے۔ حضرت ابن سعد کا بیان ہے کہ قیس بن امراء القیس نے واپس جا کر ابو سفیان کو قریش کے آجانے کی اطلاع دی۔ ابو سفیان نے کہا : ہائے قوم افسوس ! یہ عمرو بن ہشام یعنی ابوجہل کی حرکت ہے۔ اخنس کی رائے سے چونکہ بنی زہرہ بدر میں شریک نہیں ہوئے اور ان کو نقصان نہیں پہنچا اور ان کی حالت قابل رشک بن گئی ‘ اسلئے اخنس کی اس واقعہ کے بعد ان کی نظروں میں بڑی عزت ہوگئی اور سب اس کی رائے ماننے لگے۔ بنی ہاشم نے بھی لوٹ جانا چاہا تھا مگر ابوجہل نے ان پر سختی کی اور کہا : ہماری واپسی تک (بنی ہاشم کی) یہ جماعت ہمارے ساتھ رہے گی ‘ ہم سے الگ نہیں ہوسکتی۔ غرض قریش ریت کے ٹیلے اور بطن وادی کے پیچھے پرے کے کنارے والی اونچی زمین پر فروکش ہوئے اور رسول اللہ ﷺ ورلے کنارے پر۔ شروع میں پانی پر مشرکوں کا قبضہ رہا ‘ مسلمان پیاسے رہ گئے اور ان پر سخت مصیبت پڑی۔ شیطان نے ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالا کہ تمہارا دعویٰ تو یہ ہے کہ ہم اللہ کے دوست ہیں ‘ رسول اللہ ﷺ ہم میں موجود ہیں مگر پانی پر مشرکوں نے زبردستی قبضہ کر رکھا ہے اور تم جنابت کی حالت میں بغیر غسل کے نمازیں پڑھتے ہو۔ مگر اسی رات اللہ نے بارش کردی۔ مشرکوں کی طرف تو ایسی موسلادھار بارش ہوئی کہ وہ آگے نہ بڑھ سکے اور مسلمانوں کیلئے ہلکی ہلکی بارش ہوئی جس سے وہ نہا بھی لئے ‘ بدن کی گندگی بھی دور ہوگئی اور زمین بھی ہموار ہوگئی ‘ ریت سخت پڑگئی اور قدم جمنے لگے (دلدل اور کیچڑ نہیں ہوئی) پڑاؤ بھی درست ہوگیا ‘ دلوں میں سکت بھی آگئی اور ادھر ادھر چلنے کی رکاوٹ دور ہوگئی۔ وادی بہنے لگی ‘ سب نے پانی پی لیا ‘ اونٹوں کو بھی پلا دیا اور مشکیزے بھی بھر لئے۔ اسی رات کو مسلمانوں پر ایک ایسی اونگھ طاری ہوگئی کہ سب لوگ سو گئے۔ ایک ‘ دوسرے کے سامنے آکر اٹھاتا تھا مگر اس کو پتہ بھی نہ چلتا تھا اور وہ پہلو کے بل گرپڑتا تھا۔ ابو یعلی اور بیہقی نے دلائل میں حضرت علی کا قول نقل کیا ہے کہ بدر کے دن مقداد کے علاوہ ہم میں کوئی سوار نہ تھا اور میری آنکھوں میں اب تک وہ منظر ہے کہ سوائے رسول اللہ ﷺ کے ‘ ہم میں کوئی آدمی ایسا نہ تھا جو سو نہ گیا ہو ‘ حضور ﷺ ایک درخت کے نیچے صبح تک نماز پڑھتے رہے۔ یہ جمعہ کی رات تھی اور دونوں فریقوں کے درمیان ریت کی ایک پہاڑی حائل تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے عمار بن یاسر اور عبد اللہ بن مسعود کو (قریش کی طرف حال معلوم کرنے) بھیجا۔ دونوں نے جا کر ان لوگوں کی فرودگاہ کے آس پاس چکر لگایا اور آکر اطلاع دی کہ وہ لوگ خوف زدہ ہیں اور ان پر سخت بارش ہوئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ ساتھیوں کو لے کر عشاء کے وقت اور آگے بڑھے تاکہ مشرکوں کے پہنچنے سے پہلے چشمہ پر قبضہ کرلیں ‘ چناچہ آگے پہنچ گئے اور پانی پر قبضہ کرلیا اور بدر کے اوّل چشمہ پر پہنچ کر ٹھہر گئے۔ مشرکوں کو بارش نے آگے نہ بڑھنے دیا۔ ابن اسحاق کی روایت میں آیا ہے کہ حباب بن منذر بن جموح نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! کیا اس جگہ اترنے کا آپ کو اللہ نے حکم دیا ہے ‘ پھر تو ہم پیچھے آگے ہٹ نہیں سکتے ‘ یا یہ ایک مصلحت اور جنگی تدبیر ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : (حکم نہیں) بلکہ رائے ‘ مصلحت اور جنگی تدبیر ہے۔ حباب نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! یہ اترنے کی جگہ نہیں ہے ‘ یہاں سے لوگوں کو الٹا لے چلئے اور قریش کے قریب ترین جو پانی ہے ‘ وہاں چل کر ٹھہرئیے۔ وہاں چشمہ کے قریب ہم ایک کنواں کھودیں گے اور کنویں پر ایک حوض بنا دیں گے ‘ اس طرح چشمہ سے نکلنے کی بجائے پانی کنویں میں آکر بھر جائے گا اور اس پانی سے ہم حوض بھر لیں گے۔ ہمارے پینے کیلئے تو پانی ہوجائے گا اور وہ نہ پی سکیں گے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : تم نے مشورہ سمجھ کا دیا۔ حضرت ابن سعد نے لکھا ہے کہ جبرئیل نے بھی اتر کر کہا تھا کہ حباب نے جو مشورہ دیا ‘ وہ ٹھیک ہے۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ اپنے ساتھ سب لوگوں کو لے کر اٹھ کھڑے ہوے اور قریش کے قریب ترین پانی کے پاس آدھی رات کو پہنچ کر پڑاؤ ڈال دیا۔ پھر حضور ﷺ کے حکم سے ایک کنواں کھودا گیا اور اس پر ایک حوض بنا دیا گیا اور حوض کو پانی سے بھر دیا گیا ‘ پھر سب لوگوں نے اس میں (اپنے اپنے) برتن ڈال دئیے۔ حضرت سعد بن معاذ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! ہم آپ کیلئے ایک جھونپڑی بنائے دیتے ہیں ‘ اس میں آپ قیام کریں۔ پاس ہی ہم کچھ اونٹنیاں تیار رکھیں گے ‘ پھر ہم دشمن سے مقابلہ کریں گے ‘ اگر ہم دشمن پر غالب آگئے تو مقصد پورا ہوگیا اور اگر کچھ دوسری بات ہوئی تو آپ اونٹنی پر سوار ہو کر ان لوگوں کے پاس پہنچ جائیں جن کو ہم اپنے پیچھے (مدینہ میں) چھوڑ آئے ہیں کیونکہ وہاں بکثرت ایسے لوگ رہ گئے ہیں جو حضور ﷺ کی محبت میں ہم سے کم نہیں ہیں ‘ اگر ان کو خیال ہوتا کہ حضور ﷺ کو جنگ پیش آئے گی تو وہ پیچھے نہ رہتے۔ اللہ ان کے ذریعہ سے آپ کی حفاظت کرے گا ‘ وہ آپ کی خیرخواہی کریں گے اور آپ کے ساتھ مل کر جہاد کریں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ بات سن کر حضرت سعد کیلئے کلمات خیر ادا فرمائیے اور ان کو دعا دی۔ پھر رسول اللہ ﷺ کیلئے ایک ٹیلہ پر جہاں سے میدان جنگ کی حالت دکھائی دیتی تھی ‘ ایک جھونپڑی بنا دی گئی ‘ اس میں رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر فروکش ہوگئے ‘ تیسرا کوئی نہ تھا۔ حضرت سعد بن معاذ جھونپڑی کے دروازہ پر تلوار گردن سے لٹکائے کھڑے ہوگئے۔ پھر رسول اللہ ﷺ میدان جنگ کے مقام پر تشریف لے گئے اور ہاتھ سے اشارہ کر کے بتانے لگے کہ یہ فلاں شخص کی قتل گاہ ہے ‘ اس جگہ فلاں آدمی مارا جائے گا انشا اللہ۔ چناچہ جہاں جہاں حضور ﷺ نے اشارہ کردیا تھا ‘ قریش کے آدمیوں میں سے کوئی بھی وہاں سے بچ نہ سکا (ہر شخص حضور ﷺ کی بتائی ہوئی جگہ پر ہی مارا گیا) رواہ احمد و مسلم وغیرہما۔ طبرانی نے حضرت رافع بن خدیج کی روایت سے بیان کیا ہے کہ بدر کے دن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر اہل اسلام کا کوئی بچہ پیدا ہو کر آخر عمر تک اللہ کی پوری پوری اطاعت کرتا رہے تب بھی (ثواب اور درجہ میں) تمہاری اس ایک رات (یعنی شب بدر) کو نہیں پہنچ سکتا اور فرمایا : جو ملائکہ بدر میں حاضر ہوئے تھے ‘ وہ ان ملائکہ سے فضیلت رکھتے ہیں جو حاضر نہیں ہوئے۔ اس روایت کے تمام راوی سوائے جعفر بن معلاص کے ثقہ ہیں ‘ جعفر غیرمعروف ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے صبح مقام بدر پر کی۔ ادھر قریش اپنی پوری طاقت اور اسلحہ کے ساتھ اللہ اور رسول ﷺ کی مخالفت میں نکلے تھے ‘ ان کے اندر رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کے خلاف جوش ‘ غضب ‘ غصہ اور سخت اشتعال تھا کہ صحابہ نے ان کے قافلہ کو لوٹنا اور قافلہ کے آدمیوں کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا اور اس سے پہلے عمرو بن حضرمی کو قتل اور اس کے اونٹوں کو چھین چکے تھے۔ یہ قصہ سورة البقرۃ کی آیت یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الشَّھْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِکی تفسیر کے ذیل میں ہم بیان کرچکے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے قریش کو ریت کے پہاڑ سے نیچے وادی کی طرف آتے ہوئے ملاحظہ فرمایا۔ سب سے پہلے زمعہ بن اسود گھوڑے پر سوار سامنے آیا ‘ اس کے پیچھے اس کا بیٹا بھی تھا۔ اس نے گھوڑے کو ایک چکر دیا ‘ قوم کے پڑاؤ کیلئے مقام کی تلاش کر رہا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ قریش اپنے غرور اور تکبر کے ساتھ آگئے۔ اے اللہ ! یہ تیرے رسول کی تکذیب کر رہے ہیں اور اس سے لڑ رہے ہیں۔ اے اللہ ! تو نے جس فتح کا مجھ سے وعدہ فرمایا ہے ‘ وہ عطا فرما اور صبح ان کو ہلاک کر دے۔ عتبہ بن ربیعہ کو سرخ اونٹ پر سوار دیکھ کر حضور ﷺ نے فرمایا : اگر اس قوم میں سے کسی میں کوئی خیر ہوسکتی تھی تو اس سرخ اونٹ والے میں تھی۔ اگر یہ لوگ اس کا مشورہ مان لیتے تو سیدھے راستہ پر پڑجاتے۔ یہ عتبہ ہے ‘ یہ لڑائی سے روک رہا اور لوٹ جانے کا مشورہ دے رہا تھا اور کہہ رہا تھا : قوم والو ! آج لوٹنے کی عار کی پٹی میرے سر سے باندھ دو اور کہو کہ عتبہ نامراد ہوگیا اور ابوجہل انکار کر رہا تھا (اور جنگ کیلئے اڑا ہوا تھا) خفاف بن ایما بن حضہ غفاری نے یا اس کے باپ نے (یہ تینوں آخر میں مسلمان ہوگئے تھے مگر اس وقت کافر تھے) اپنے بیٹے کے ساتھ کچھ اونٹ قریش کے پاس بطور ہدیہ بھیج دئیے اور کہلا بھیجا کہ اگر تم چاہو تو اسلحہ اور آدمیوں سے ہم تمہاری مدد کرسکتے ہیں۔ قریش نے جواب میں کہلوایا : آپ سے تعلق اور رشتہ پکا ہے ‘ جو آپ پر حق تھا وہ آپ نے ادا کردیا (آئندہ امداد کی ضرورت نہیں) اگر ہمارا مقابلہ آدمیوں سے ہے تو خدا کی قسم ! ان کے مقابلہ میں ہمارے اندر کوئی کمزوری نہیں ہوسکتی اور اگر محمد ﷺ کے گمان کے مطابق ہماری لڑائی اللہ سے ہوئی تو اللہ کا مقابلہ کرنے کی کسی میں طاقت نہیں۔ جب لوگ ٹھہر گئے تو قریش کے چند آدمی جن میں حکیم بن حزام بھی تھے ‘ رسول اللہ ﷺ کے (بنائے ہوئے) حوض پر اتر آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان کو اترنے دو ۔ سوائے حکیم بن حزام کے ان میں سے جس شخص نے بھی اس کا پانی پیا ‘ مارا گیا۔ حکیم بن حزام بچ گئے اور اس کے بعد مسلمان ہوگئے اور اسلام میں پختہ رہے۔ جب آپ (مسلمان ہونے کے بعد) مضبوط قسم کھاتے تھے تو یوں کہتے تھے : قسم ہے اس اللہ کی جس نے بدر کے دن مجھے بچا لیا۔ جب قریش ٹھکانے سے ہوگئے تو عمیر بن وہب جمحی کو (جو آخر میں مسلمان ہوگئے تھے) مسلمانوں کی تعداد کا اندازہ لگانے کیلئے بھیجا۔ عمیر نے مسلمانوں کے لشکر کے گرداگرد گھوڑے کو چکر دیا اور لوٹ کر بتایا کہ کم و بیش تین سو ہیں ‘ لیکن ذرا ٹھہرو میں یہ بھی دیکھ لوں کہ کہیں ان کی چھپی ہوئی کمک نہ ہو۔ چناچہ وادی کے اندر وہ دور تک گیا اور جب کچھ نظر نہ آیا تو لوٹ کر قریش سے کہہ دیا کہ میں نے کوئی کمک تو نہیں دیکھی لیکن ایک بات دیکھی کہ اونٹنیاں موتوں کو اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہیں۔ یثرب کے آب کش اونٹوں پر لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ ایسی قوم ہے کہ سوائے تلواروں کے نہ ان کے محافظین ہیں ‘ نہ پناہ کا مقام۔ کیا تم کو نہیں معلوم کہ وہ باتیں کرتے ہیں ‘ ہوشیار رہتے ہیں اور سانپ کی طرح منہ میں زبانیں گھماتے ہیں۔ بخدا ! میرا خیال ہے کہ ان کا ایک آدمی بھی اس وقت تک قتل نہیں ہوگا جب تک وہ تمہارے کسی آدمی کو قتل نہ کر دے۔ اگر وہ اپنی تعداد کے برابر تمہارے آدمیوں کو قتل کردیں (اور خود بھی مارے جائیں) تو اس کے بعد زندگی کا کیا فائدہ ؟ اب تم خود سوچ لو۔ اس کے بعد قریش نے ابو سلمہ جشمی کو بھیجا ‘ اس نے گھوڑے پر سوار ہو کر مسلمانوں کے گرداگرد چکر لگایا اور واپس آکر کہا : خدا کی قسم ! میں نے نہ چمڑے کی وردی دیکھی ‘ نہ سامان ‘ نہ زرہ ‘ نہ گھوڑے بلکہ میں نے ان کو ایسی قوم پایا جو خیال کئے ہوئے ہیں کہ اب گھر والوں کے پاس لوٹ کر جانا نہیں ہے۔ وہ مسلم ہیں ‘ موت کے طلب گار۔ نہ ان کے محافظ ہیں ‘ نہ کوئی پناہ گاہ بس تلواریں ہی ان کا سب کچھ ہیں۔ نیلی آنکھوں والے ہیں ‘ ڈھالوں کے پیچھے ‘ معلوم ہوتا ہے کہ پتھر کی چٹانیں ہیں غیر متحرک۔ اب تم خود سوچ لو۔ حکیم بن حزام نے جو یہ باتیں سنیں تو چل کر عتبہ بن ربیعہ کے پاس پہنچے اور اس سے لوگوں کو واپس لے جانے کی گفتگو کی اور کہا : ابو الولید ! آپ قریش کے معمر بزرگ ہیں ‘ سردار ہیں ‘ آپ کی بات سب مانتے ہیں۔ کیا آپ ایک کام ایسا کرسکتے ہیں جس کی وجہ سے آپ کا نام ہمیشہ رہے گا۔ عتبہ نے پوچھا : حکیم ! وہ کیا بات ہے ؟ حکیم نے کہا : لوگوں کو لوٹا کرلے جائیے اور اپنے حلیف عمر بن حضرمی (کے جانی مالی نقصان) کو خود برداشت کرلیجئے۔ عتبہ نے کہا : حکیم ! تم نے (میرے پاس آکر تو) ایسا کرلیا ‘ میں یہ نقصان اپنے اوپر لیتا ہوں کیونکہ عمر حضرمی میرا حلیف تھا ‘ مجھ پر اس کی دیت اور مالی نقصان لازم ہے (میں دے دوں گا) مگر تم ابن حنظلہ کے پاس بھی جاؤ ‘ مجھے اندیشہ اور کسی سے نہیں ‘ صرف اسی سے ہے ‘ وہی لوگوں پر جادو کر دے گا۔ ابن حنظلہ سے مراد ابوجہل تھا۔ اس کے بعد عتبہ نے لوگوں میں جا کر ایک تقریر کی اور کہا : اے گروہ قریش ! تم کیا کر رہے ہو ؟ خدا کی قسم ! صبح کو اگر تم محمد ﷺ اور اس کے ساتھیوں پر کچھ غلبہ بھی پالو گے تب بھی آئندہ ہمیشہ ایک آدمی دوسرے کو نفرت کی نظر سے دیکھے گا کیونکہ وہ اس کے چچا یا ماموں کے بیٹے کو یا اس کے کنبہ کے کسی اور آدمی کو قتل کرچکا ہوگا (کسی کو اپنے بھائی برادر کا قاتل کیسے اچھا لگے گا) لہٰذا تم لوٹ جاؤ ‘ محمد ﷺ کو دوسرے عربوں کے (مقابلہ کے) لئے چھوڑ دو ۔ اگر دوسرے عرب اس پر غالب آگئے تو تمہاری مراد حاصل ہوگئی اور اگر اس کے سوا کچھ ہوا تو وہ تم کو الگ پائے گا ‘ تم اس سے تعرض نہ کرو گے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ لوگ موت کے طلب گار ہیں۔ تم میں جب تک خیر ہے ‘ ان لوگوں تک نہیں پہنچ سکتے (یعنی ان پر غلبہ پانے کیلئے تم کو بہت بڑا جانی نقصان اٹھانا پڑے گا) لوگو ! آج اس عار کی پٹی میرے سر سے باندھ دو اور کہہ دو کہ عتبہ بزدل ہوگیا ‘ حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں تمہارے اندر نامرد نہیں ہوں۔ حکیم کا بیان ہے : اس کے بعد میں ابوجہل کے پاس گیا ‘ وہ زرہ کیس سے زرہ نکال کر ٹھیک کر رہا تھا۔ میں نے اس سے کہا : ابوالحکم عتبہ نے مجھے آپ کے پاس یہ یہ بات کہنے کیلئے بھیجا ہے۔ کہنے لگا : جب سے اس نے محمد ﷺ کو اور اس کے ساتھیوں کو دیکھا ہے کہ یہ کہتا ہے ‘ خدا کی قسم ! اب تو جب تک خدا ہی ہمارا اور محمد ﷺ کا فیصلہ نہ کر دے گا۔ بخدا ! ہم واپس نہیں جائیں گے۔ عتبہ کے اس قول کی سوائے اس کے اور کوئی وجہ نہیں کہ اس نے محمد ﷺ اور اس کے ذلیل ساتھیوں کو دیکھ لیا ہے اور تمہارے ساتھ اس کا بیٹا موجود ہے ‘ بس اس کو اپنے بیٹے کے متعلق ڈر لگا (کہ کہیں وہ نہ مارا جائے) اس کے بعد ابوجہل نے عامر حضرمی کو بلوایا اور اس سے کہا : دیکھو ! یہ عتبہ جو تمہارا حلیف ہے ‘ بخدا ! لوگوں کو لوٹا کرلے جا رہا ہے۔ تم کھڑے ہوجاؤ اور (قریش سے) اپنا عہد و میثاق اور اپنے بھائی کا خون طلب کرو (قریش اور قبیلہ حضرم کے درمیان باہم مدد کرنے کا معاہدہ تھا ‘ جب مسلمانوں کے ہاتھوں سے عمر حضرمی مارا گیا اور عمر کا بیٹا عامر حضرمی مسلمانوں سے بدلہ کا خواستگار ہوا تو قریش پر لازم تھا کہ عامر کی حمایت کریں اور عمر کے خون کا انتقام حاصل کرنے میں عامر کی مدد کریں) عامر حضرمی نے فوراً اٹھ کر اپنے سرین برہنہ کر دئیے اور چیخ کر فریاد کی : ہائے عمر ! اس کے بعد لڑائی میں گرمی آگئی ‘ معاملہ سخت ہوگیا اور جنگ کرنے پر لوگ تل گئے اور عتبہ نے جس رائے کی طرف لوگوں کو دعوت دی تھی ‘ وہ رائے برباد گئی۔ جب عتبہ کو ابوجہل کے اس قول کی اطلاع پہنچی کہ ابوجہل نے کہا ہے : بخدا ! عتبہ کو اپنے بیٹے کے مارے جانے کا ڈر ہے ‘ تو عتبہ نے کہا : عنقریب اس زمانہ کو معلوم ہوجائے گا کہ میری یا اس کی ‘ کس کی بزدلی ہے۔ اس کے بعد عتبہ نے سر کا خود طلب کیا مگر لشکر بھر میں اتنا بڑا خود کوئی نہیں ملا جو اس کے سر پر آسکتا ‘ مجبوراً چادر اوڑھنی کی طرح اس نے سر سے لپیٹ لی۔ ابوجہل نے تلوار سونت کر اپنے گھوڑے کی پشت پر ماری ‘ یہ دیکھ کر ایما بن رحضہ بولا : یہ تو بدشگونی ہوئی۔ محمد بن عمر اسلمی ‘ بلادری اور صاحب الامتناع کا بیان ہے کہ قریش کے پڑاؤ ڈالنے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر بن خطاب کو یہ پیام دے کر قریش کے پاس بھیجا کہ آپ لوگ واپس چلے جائیں ‘ تم سے لڑنے کو میں پسند نہیں کرتا ‘ یہ کام میرے مقابلہ پر تمہاری جگہ اگر دوسرے لوگ کریں تو اس سے اچھا ہوگا کہ تم مجھ سے لڑو۔ یہ پیام سن کر حکیم بن حزام نے کہا : بات تو محمد ﷺ نے خیرخواہی کی پیش کی ہے ‘ اس بات کو مان لو۔ خدا کی قسم ! وہ انصاف کی بات جب پیش کرچکا تو اب تم اس پر غالب نہیں آسکتے کیونکہ اب محمد ﷺ سے جنگ کرنا تمہاری طرف سے زیادتی ہوگی۔ ابوجہل بولا : جب اللہ نے ہم کو ان پر قابو دے دیا ہے تو اب ہم (بغیر ان لوگوں کی بیخ کنی کے) واپس نہیں جائیں گے۔ ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے ابن جریج کی روایت سے لکھا ہے کہ ابوجہل نے بدر کے دن کہا تھا : ان کو پکڑ کر رسیوں سے باندھ لو ‘ کسی کو قتل نہ کرو۔ اس پر سورة نون کی آیت اِنَّا بَلَوْنٰھُمْ کَمَا بَلَوْنَا اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِنازل ہوئی ‘ یعنی ان لوگوں کو مسلمانوں پر وہ قابو حاصل ہوگیا (مسلمانوں کو وہ اپنے قابو میں سمجھنے لگے تھے) جیسے باغ والوں کا اپنے باغ پر قابو ہوتا ہے۔ غرض صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کی صف بندی کی اور تیر کی طرح صفوں کو ہموار کیا۔ آپ کے پاس ایک چھوٹا تیر تھا ‘ اس سے اشارہ کر رہے تھے۔ کسی سے فرما رہے تھے کہ ذرا آگے بڑھو ‘ کسی کو حکم دے رہے تھے کہ پیچھے ہٹو۔ آخر صفیں درست ہوگئیں۔ حضور ﷺ نے جھنڈا مصعب بن عمیر کو دیا۔ جس جگہ جھنڈا نصب کرنے کا حضور ﷺ نے حکم دیا ‘ حضرت مصعب اس طرف کو بڑھے۔ حضور ﷺ لائنوں کو دیکھنے لگے ‘ مغرب کی طرف اور سورج کی طرف لشکر کی پشت کرائی۔ مشرک سامنے تھے ‘ ان کا منہ سورج کی طرف رہا۔ مسلمانوں کا قیام شمالی کنارہ (عدوۂ شامیہ) پر اور مشرکوں کا قیام جنوبی کنارہ (عدوۂ یمینہ) پر تھا۔ رسول اللہ ﷺ جب صف بندی کر رہے تھے تو سواد بن غزیہ کچھ آگے نکل آئے ‘ رسول اللہ ﷺ نے ان کے پیٹ میں گھونسا مارا اور فرمایا : سواد ! سیدھا رہ۔ حضرت سواد نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! آپ نے مجھے دکھ پہنچایا ہے۔ آپ کو اس اللہ کا واسطہ جس نے آپ کو برحق نبی بنا کر بھیجا ہے ! آپ کو اس کا بدلہ دینا ہوگا۔ حضور ﷺ نے یہ سنتے ہی شکم مبارک کھول دیا اور فرمایا : بدلہ لے لو۔ حضرت سواد پیٹ کھلا دیکھ کر پیٹ سے چمٹ گئے اور چومنے لگے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : سواد ! تم نے ایسا کیوں کیا ؟ حضرت سواد نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! اللہ کا جو حکم تھا ‘ وہ سامنے آگیا اور مجھے خیال ہے کہ میں مارا جاؤں گا ‘ اسلئے میری خواہش ہوئی کہ آخری وقت آپ سے چمٹ جاؤں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس وقت صحابہ کو حکم دیا : جب دشمن تمہارے قریب ہوں تو تیر مارنا اور تلوار سے جنگ اس وقت کرنا جب بالکل ہی قریب آجائیں۔ کذا روی ابو داؤد عن ابی اسید۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک تقریر فرمائی اور اللہ کی حمد وثناء کے بعد لوگوں کو جنگ پر ثابت قدم رہنے اور اللہ کی خوشنوی کا طلب گار ہونے کی ترغیب دی۔ قریش بھی جنگ کیلئے تیار ہوگئے اور (انسانی شکل میں) شیطان بھی ان کے ساتھ لگا رہا۔ مسلمان اپنی لائن پر جمے رہے (کوئی ابتداء میں آگے نہیں بڑھا) سب سے پہلے عامر حضرمی نے مسلمانوں پر حملہ کیا ‘ اس کے مقابلہ پر مہیجع بن عایش ‘ حضرت عمر کا آزاد کردہ غلام نکلا ‘ عامر نے مہیجع کو شہید کردیا۔ انصار میں سے سب سے پہلے حضرت حارثہ بن سراقہ شہید ہوئے ‘ آپ کو حیان بن عرفہ نے شہید کیا۔ عتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ اور بیٹے ولید کے درمیان میدان میں نکلا ‘ اس کے مقابلہ کیلئے تین انصاری حضرت عبد اللہ بن رواحہ ‘ حضرت عوذ اور حضرت معاذ نکلے ‘ حضرت عوذ و حضرت معاذ کے باپ کا نام حارث اور ماں کا نام عفراء تھا۔ عتبہ نے کہا : ہم تم سے مقابلہ نہیں کریں گے ‘ ہمارے مقابلہ کیلئے ہم سر (قریشی) سردار ہونے چاہئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عبیدہ بن حارث ! کھڑے ہوجاؤ ‘ حمزہ ! کھڑے ہوجاؤ ‘ علی ! کھڑے ہوجاؤ۔ حضرت حمزہ نے تو شیبہ کو سنبھلنے بھی نہ دیا ‘ قتل کردیا۔ حضرت علی نے ولید کو فرصت نہ دی ‘ قتل کردیا۔ حضرت عبیدہ اور عتبہ میں تلواروں کی نوک جھونک ہونے لگی ‘ دونوں زخمی ہوگئے۔ یہ دیکھ کر حضرت حمزہ اور حضرت علی اپنی تلواریں لے کر عتبہ پر ٹوٹ پڑے اور اس کا کام تمام کردیا اور قریش اپنے آدمی (عتبہ) کو اٹھا کرلے گئے۔ صحیحین میں آیا ہے کہ سورة الحج میں انہی دونوں کے متعلق آیت ھٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّھِمْ الخ نازل ہوئی تھی۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر کو ساتھ لے کر جھونپڑی میں لوٹ آئے ‘ تیسرا کوئی ساتھ نہ تھا اور اللہ سے اس فتح کی دعا کرنے لگے جس کا وعدہ اللہ نے کیا تھا۔ دعا میں آپ کے الفاظ یہ بھی تھے : اے اللہ ! آج اگر یہ گروہ ہلاک ہوگیا تو زمین پر پھر تیری پوجا نہ ہو سکے گی۔ حضرت ابوبکر کہہ رہے تھے : یا رسول اللہ ﷺ ! اب اپنے رب کی پکار میں کمی کیجئے۔ اللہ نے جو وعدہ آپ سے کیا ہے ‘ وہ یقیناً پورا کرے گا۔ ابن جریر ‘ ابن ابی حاتم اور طبرانی نے حضرت ابو ایوب انصاری کی روایت سے لکھا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! حضور کی ذات تو مشورہ دینے سے بالاتر ہے مگر میں ایک مشورہ عرض کرتا ہوں کہ اللہ کو اس کا وعدہ یاد دلانے کی اب ضرورت نہیں ‘ اس کی ذات اس کی یاددہانی سے بالا اور اعلیٰ ہے۔ فرمایا : ابن رواحہ ! میں اللہ کو اس کے وعدہ کا واسطہ دیتا رہوں گا ‘ کوئی شبہ نہیں کہ اللہ وعدہ کے خلاف نہیں کرے گا۔ حضرت ابن سعد اور ابن جریر نے حضرت علی کا بیان نقل کیا ہے ‘ حضرت علی نے فرمایا : بدر کے دن میں کچھ دیر لڑتا رہا ‘ پھر دوڑا ہوا آیا کہ دیکھوں رسول اللہ ﷺ کس حال میں ہیں۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ سجدہ میں پڑے یا حیّ یا قیوّم فرما رہے ہیں ‘ اس سے زیادہ کوئی لفظ نہیں فرما رہے تھے۔ پھر میں لڑائی کی طرف لوٹ گیا ‘ کچھ دیر کے بعد پھر واپس آیا اور حضور ﷺ کو سجدہ میں یہی الفاظ کہتے پایا ‘ اس کے بعد اللہ نے فتح عنایت فرما دی۔ بیہقی نے حضرت ابن مسعود کی روایت سے بھی یہ حدیث بیان کی ‘ اس میں اتنا زائد ہے : پھر حضور ﷺ نے رخ موڑا ‘ ایسا معلوم ہوتا کہ حضور ﷺ کا چہرہ چاند ہے اور فرمایا : گویا میں شام کو ہی اس قوم کی قتل گاہوں کو دیکھ رہا تھا۔ حضرت سعید بن منصور نے حضرت عبیدا اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مشرکوں کی کثرت اور مسلمانوں کی قلت ملاحظہ فرمائی تو دو رکعت نماز پڑھی ‘ حضرت ابوبکر دائیں طرف کھڑے تھے اور نماز میں دعا کی : اے اللہ ! مجھے بےمدد نہ چھوڑنا ‘ اے اللہ ! میں تجھے اس وعدہ کا واسطہ دیتا ہوں جو تو نے مجھ سے کیا ہے۔ ابن ابی شیبہ ‘ احمد ‘ مسلم ‘ ابو داؤد اور ترمذی وغیرہ نے حضرت عمر بن خطاب کی روایت سے بیان کیا ہے کہ بدر کے دن رسول اللہ ﷺ نے مشرکوں کو دیکھا ‘ وہ ایک ہزار تھے اور اپنے ساتھیوں کو دیکھا ‘ وہ تین سو انیس تھے تو کعبہ کی طرف رخ کر کے دونوں ہاتھ پھیلا دئیے اور اپنے رب کو پکارنے لگے اور کہنے لگے : اے اللہ ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے ‘ وہ پورا کر۔ اے اللہ ! اپنے وعدہ کے مطابق مجھے عطا کر۔ اے اللہ ! اگر مسلمانوں کا یہ گروہ ہلاک ہوگیا تو زمین پر تیری پرستش نہ ہو سکے گی۔ برابر یونہی قبلہ کی جانب ہاتھ پھیلائے پکار رہے تھے ہاں تک کہ دوش مبارک سے چادر بھی گرگئی تھی اور حضرت ابوبکر نے آکر چادر اٹھا کر دوش مبارک پر ڈالی ‘ پھر پیچھے سے رسول اللہ ﷺ کو چمٹ گئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! بس کیجئے ‘ اللہ کو پکارنے کی حد ہوگئی ‘ اللہ ضرور اپنا وعدہ پورا کرے گا۔ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top