Tafseer-e-Mazhari - Al-Ghaashiya : 20
وَ اِلَى الْاَرْضِ كَیْفَ سُطِحَتْٙ
وَاِلَى الْاَرْضِ : اور زمین کی طرف كَيْفَ : کیسے سُطِحَتْ : بچھائی گئی
اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی
والی الارض کیف سطحت . اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کس طرح ہمواری کے ساتھ اس کا فرش بچھایا گیا ہے یہی حالت جنت کی مسندوں کی ہوگی۔ ممکن ہے آیات کا مطلب اس طرح ہو کہ انواعِ کائنات کچھ مرکب ہیں (جیسے اونٹ) اور کچھ بسیط ہیں (جیسے آسمان اور زمین اور پہاڑ) اور یہ سب اللہ کی قدرت پر دلالت کر رہی ہیں اور اس سے ثابت ہو رہا ہے کہ اللہ قیامت پر قادر ہے۔ پھر یہ لوگ اس کائنات مرکبہ و بسیطہ پر غور کر کے اللہ کی قدرت علی البعث پر کیوں استدلال نہیں کرتے اور اس سچے مخبر کی شہادت کو کیوں نہیں مانتے ‘ جس کی سچائی معجزات سے ثابت ہے اور کیوں اس کیلئے آخری تیاری نہیں کرتے۔ رہی یہ بات کہ مرکبات میں صرف اونٹ اور بسائط 1 ؂ میں سے تین چیزوں کا ہی ذکر کیا (حالانکہ مرکبات بےانتہاء ہیں اور بسائط اور بھی ہیں) تو اس کی وجہ یہ ہے کہ استدلال میں انہیں چیزوں کو پیش کیا جاتا ہے جو بکثرت سامنے آتی ہوں اور چونکہ خطاب ‘ عرب سے ہے اور عرب ‘ صحراء نشین بدوی تھے جن کے سامنے آسمان ‘ زمین ‘ پہاڑ اور اونٹ تھے اور اونٹ ہی ان کا عزیز ترین مال تھا۔ دوسرے جانوروں کے مقابلہ میں اونٹ کا استعمال بکثرت کیا جاتا تھا۔ عربوں کی تمام ضروریات زندگی اونٹ سے وابستہ تھیں۔ اس کا گوشت کھاتے ‘ دودھ پیتے ‘ اس پر سامان لادتے اور خود سوار ہوتے تھے اور دوسرے جانور ان خصوصیات سے بےبہرہ تھے ‘ اس لیے فرمایا کہ اونٹ کی تخلیق پر یہ لوگ غور نہیں کرتے جو اللہ کی قدرت کاملہ اور حسن خلاقیت پر دلالت کر رہی ہے اتنا بڑا جانور لادے جانے کے لیے دو زانو بیٹھ جاتا ہے پھر لد کر بوجھ لے کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے اپنے قائد ( یعنی چلانے والے) کا (بےچون و چرا) تابع ہے۔ لمبی گردن ہونے کی وجہ سے درختوں کے پتے بھی کھاتا ہے اور گھاس بھی چر لیتا ہے۔ بیابانوں کو قطع کرنے میں اگر دس روز پانی نہ ملے تو پیاس کو برداشت کرلیتا ہے۔ بعض لوگوں نے کہا : ابل سے مراد ابر ہے۔ ابل اس ابر کو کہتے ہیں جو پانی سے بھرا ہوا ہو۔ (قاموس) حضرت ابن عباس کی روایت سے (حدیث قدسی) منقول ہے کہ میرے سوا کوئی ابل کی طرح پیدا کرسکتا ہے اور آسمان کی طرح (کوئی چھت) بلند کرسکتا ہے اور پہاڑوں کی طرح (کسی چیز کو) بپا کرسکتا ہے اور زمین کی طرح (کسی چیز کا فرش) بچھا سکتا ہے ؟ ......... 1 ؂ شاید حضرت مؤلف کی اس جگہ مرکبات سے صرف مرکبات حیوانیہ و نباتیہ اور بسائط سے مراد تمام عناصر اور جمادات اور افلاک و فلکیات ہیں۔ اسی لیے اونٹ کو مرکب اور پہاڑ وغیرہ کو بسیط فرمایا۔ ورنہ فلسفہ کی اصطلاح میں تو پہاڑوں کا شمار بھی مرکبات میں کیا جاتا ہے۔ پتھر ہوں یا دوسرے معدنیات سب کی ترکیب مختلف عناصر سے ہے۔ ہاں ! اگر پہاڑوں کو ارض بسیط کے حکم میں داخل کرلیا جائے تو توضیح مؤلف میں کسی تاویل کی ضرورت نہ ہوگی۔
Top