Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 102
وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًا١ؕ عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَاٰخَرُوْنَ : اور کچھ اور اعْتَرَفُوْا : انہوں نے اعتراف کیا بِذُنُوْبِهِمْ : اپنے گناہوں کا خَلَطُوْا : انہوں نے ملایا عَمَلًا صَالِحًا : ایک عمل اچھا وَّاٰخَرَ : اور دوسرا سَيِّئًا : برا عَسَى : قریب ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يَّتُوْبَ عَلَيْهِمْ : معاف کردے انہیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور کچھ اور لوگ ہیں کہ اپنے گناہوں کا (صاف) اقرار کرتے ہیں انہوں نے اچھے برے عملوں کو ملا جلا دیا تھا۔ قریب ہے کہ خدا ان پر مہربانی سے توجہ فرمائے۔ بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے
واٰخرون اور (اعراب میں سے یا مدینہ والوں میں سے) کچھ اور لوگ ہیں (جو منافق نہیں ہیں بلکہ ان کی حالت یہ ہے) اعترفوا بذنوبھم خلطوا عملاً صالحًا واخر سیءًا انہوں نے اپنے قصور کا اقرار کرلیا ہے۔ یعنی غزوۂ تبوک میں شریک نہ ہونے اور نہ جانے کا کوئی جھوٹا عذر نہیں پیش کیا بلکہ اپنے قصور کا اعتراف کرلیا۔ انہوں نے نیک عمل کو برے عمل کے ساتھ مخلوط کردیا۔ نیک عمل سے مراد ہے : ایمان ‘ نماز اور رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب رہ کر متعدد مرتبہ جہاد میں شرکت اور تبوک سے غیرحاضری پر ندامت اور اظہار قصور۔ برے عمل سے مراد ہے : تبوک سے غیرحاضری اور اس معاملہ میں منافقوں کے ساتھ عملی موافقت۔ وَاٰخَرَ سَیِّءًا میں واؤ بمعنی بَ ہے ‘ برے عمل کے ساتھ۔ عسی اللہ ان یتوب علیھم امید ہے کہ اللہ ان کی توبہ قبول فرما لے گا۔ اِعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِھِمْکا لفظ اپنے اندر توبہ کا مفہوم رکھتا ہے ‘ اسلئے فرمایا کہ امید ہے اللہ ان کی توبہ قبول فرما لے گا۔ ان اللہ غفور رحیم۔ بلاشبہ اللہ غفور و رحم ہے۔ توبہ کرنے والے سے درگذر فرماتا اور اس پر مہربانی کرتا ہے۔ ابن جریر ‘ ابن المنذر ‘ ابن ابی حاتم ‘ ابن مردویہ اور بیہقی نے دلائل میں حضرت ابن عباس کی روایت سے ‘ نیز بیہقی نے اس آیت کے ذیل میں حضرت سعید بن مسیب کے حوالہ سے بیان کیا ہے ‘ حضرت ابن عباس نے فرمایا : یہ لوگ دس تھے جو رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب ہو کر غزوۂ تبوک پر نہیں گئے تھے ‘ انہی میں سے ابو لبابہ بھی تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ واپس تشریف لے آئے تو ان میں سے سات آدمیوں نے مسجد کے ستونوں سے خود اپنے کو بندھوا دیا۔ مسجد سے واپسی کے وقت رسول اللہ ﷺ کی گذرگاہ اسی طرف تھی۔ جب حضور ﷺ نے ان کو دیکھا تو فرمایا : یہ خود بندھے ہوئے لوگ کون ہیں ؟ صحابہ نے عرض کیا : یہ ابو لبابہ اور ان کے ساتھی ہیں جو آپ کے ساتھ نہیں گئے تھے ‘ اسلئے انہوں نے اللہ سے عہد کر رکھا ہے کہ جب تک حضور ﷺ ان سے راضی نہ ہوجائیں گے اور اپنے دست خاص سے ان کو نہ کھولیں گے ‘ یہ خود کھلنے پر تیار نہ ہوں گے۔ انہوں نے اپنے قصور کا اعتراف بھی کرلیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں بھی اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ ان کو خود نہیں کھولوں گا اور ان کا عذر نہیں قبول کروں گا تاوقتیکہ اللہ ہی ان کو نہ کھولے۔ یہ مجھ سے منحرف ہو کر مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد پر نہیں گئے۔ ان حضرات کو جب رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان پہنچا تو بولے : ہم بھی اپنے کو نہیں کھولیں گے تاوقتیکہ اللہ ہی نہ کھولے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (اس آیت میں لفظ عَسٰی آیا ہے جس کا معنی ہے امید۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے قطعی حکم ان کی توبہ قبول کرنے کا نہیں دیا تھا ‘ صرف امید کا اظہار فرمایا ہے ‘ لیکن) اللہ کی طرف سے امید کا اظہار چونکہ وجوب پر دلالت کرتا ہے ‘ اس لئے اس جگہ عَسٰی کا معنی وجوب کا ہے ‘ اسی بناء پر اس آیت کے نزول کے بعد رسول اللہ ﷺ نے توبہ قبول ہونے کی خبر ان لوگوں کے پاس بھیج دی اور ان کا عذر قبول فرما لیا اور ان کو رہا کرا دیا۔ حضرت سعید بن مسیب کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ابولبابہ کو رہا کرنے کیلئے آدمی بھیجا تو انہوں نے سوائے رسول اللہ ﷺ کے ‘ کسی اور کے ہاتھ سے رہا ہونے سے انکار کردیا۔ آخر رسول اللہ ﷺ نے تشریف لے جا کر دست مبارک سے ان کو کھولا۔ پھر یہ حضرات اپنے اپنے مال لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! یہ ہمارے مال ہیں ‘ ان کو ہماری طرف سے بطور صدقہ قبول فرما لیجئے اور ہمارے لئے دعائے مغفرت فرما دیجئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : مجھے تمہارے مال لینے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ اس پر اللہ نے آیت ذیل نازل فرمائی :
Top