Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 129
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰهُ١ۖۗ٘ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۠   ۧ
فَاِنْ تَوَلَّوْا : پھر اگر وہ منہ موڑیں فَقُلْ : تو کہ دیں حَسْبِيَ : مجھے کافی ہے اللّٰهُ : اللہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّا ھُوَ : اس کے سوا عَلَيْهِ : اس پر تَوَكَّلْتُ : میں نے بھروسہ کیا وَھُوَ : اور وہ رَبُّ : مالک الْعَرْشِ : عرش الْعَظِيْمِ : عظیم
پھر اگر یہ لوگ پھر جائیں (اور نہ مانیں) تو کہہ دو کہ خدا مجھے کفایت کرتا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اسی پر میرا بھروسہ ہے اور وہی عرش عظیم کا مالک ہے
فان تولوا پھر اگر یہ روگردانی کریں۔ یعنی ایمان سے منہ موڑ لیں اور آپ سے لڑنے کیلئے تیار ہوجائیں۔ فقل حسبی اللہ تو آپ کہہ دیجئے کہ میرے لئے اللہ کافی ہے۔ یعنی اللہ کافروں کے خلاف تمہاری مدد کرے گا اور تمہارا کام پورا کرے گا۔ لا الہ الا ھو (کیونکہ) اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ علیہ توکلت اسی پر میں نے بھروسہ کرلیا۔ مجھے اس کے سوا نہ کسی سے امید ہے نہ خوف۔ وھو رب العرش العظیم۔ اور وہ بڑی عظمت والے عرش کا مالک ہے۔ عرش چونکہ مخلوقات میں سب سے بڑی مخلوق ہے ‘ اسلئے خصوصیت کے ساتھ اس جگہ عرش عظیم کا ذکر کیا۔ عبد اللہ بن احمد نے حضرت ابی بن کعب کا قول نقل کیا ہے کہ سب سے آخر میں یعنی قرآنی آیات میں سب سے آخر میں نازل ہونے والی یہی دو آیات ہیں لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوْل سے ختم سورة تک اور یہ بھی فرمایا کہ اللہ کے پاس سے آنے والی آیات میں (ہمارے لئے) قریب ترین زمانہ والی یہی دو آیات ہیں۔ (1) [ یحییٰ بن عبدالرحمن بن حاطب کا بیان ہے کہ حضرت عمر نے قرآن کو یکجا کرنے کا ارادہ کیا اور لوگوں سے فرمایا : جس نے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں قرآن کا کوئی حصہ سیکھا ہو وہ ہمارے پاس لے کر آجائے۔ لوگوں نے قرآن مجید کی آیات کاغذوں پر ‘ تختیوں پر اور درختوں کے پوست پر لکھ رکھی تھیں۔ حسب الحکم لوگ لانے لگے ‘ لیکن آپ کسی کی لائی ہوئی کوئی آیت قبول نہیں کرتے تھے جب تک دو شاہد شہادت نہیں دیتے تھے (کہ یہ قرآن کی آیات ہیں ‘ رسول اللہ ﷺ نے ان کی تعلیم دی تھی) آپ جمع ہی کر رہے تھے کہ آپ کو شہید کردیا گیا۔ اس کے بعد حضرت عثمان بن عفان آپ کی جگہ ہوگئے اور حضرت عثمان نے فرمایا : جس کے پاس قرآن کا کوئی حصہ ہو وہ میرے پاس لے آئے۔ آپ بھی کوئی آیت بغیر دو شاہدوں کے شہادت دیئے قبول نہیں کرتے تھے۔ حضرت خزیمہ بن ثابت نے فرمایا : میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ لوگوں نے دو آیتیں نہیں لکھیں۔ حضرت عثمان نے فرمایا : وہ کونسی ہیں ؟ حضرت خزیمہ نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے دو آیتیں سیکھی تھیں : لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْآخر تک۔ حضرت عثمان نے فرمایا : میں شہادت دیتا ہوں کہ یہ دونوں آیات اللہ کی طرف سے (آئی) ہیں۔ اب بتائیے آپ کی رائے میں ان کو کہاں رکھنا چاہئے ؟ حضرت خزیمہ نے جواب دیا : قرآن کا جو حصہ آخر میں نازل ہوا تھا ‘ اس کے خاتمہ پر ان کو رکھئے۔ چناچہ سورة برأت کے خاتمہ پر ان آیات کو لکھ دیا گیا۔] فصل : سورة توبہ کا زیادہ حصہ جنگ تبوک کے واقعات کے سلسلہ میں نازل ہوا۔ مختلف آیات کی تفسیر کے ذیل میں کچھ واقعات کا تذکرہ کردیا گیا ہے۔ ذیل میں تبوک سے تعلق رکھنے والے باقی واقعات اور ان معجزات کو بیان کیا جا رہا ہے جو ان واقعات کے درمیان ظہورپذیر ہوئے تھے۔ طبرانی نے حضرت عبد اللہ بن سلام کا بیان نقل کیا ہے ‘ حضرت عبد اللہ نے فرمایا : تبوک کو جاتے ہوئے جب رسول اللہ ﷺ کا گذر خلیجہ کی طرف سے ہوا تو صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! (اونٹوں کے) پڑاؤ کیلئے یہی جگہ (مناسب معلوم ہوتی) ہے ‘ یہاں سایہ بھی ہے اور پانی بھی۔ یعنی یہاں گوگل کے بڑے بڑے درختوں کا سایہ بھی ہے اور پانی (کے چشمے) بھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہ کھیتی کی زمین ہے۔ اونٹنی کو جانے دو (یہ خود جہاں ٹھہرنا ہوگا ‘ ٹھہر جائے گی) یہ مامور (من اللہ) ہے۔ چناچہ اونٹنی آگے بڑھی اور دومہ کے پاس جا کر بیٹھ گئی ذی المروہ کی مسجد میں۔ محمد بن عمر کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ وادی قریٰ میں فروکش ہوئے تو بنی عریض کے یہودیوں نے ہریس (حلیم یا حلیم نما کوئی کھانا) پیش کیا۔ حضور ﷺ نے اس کو تناول فرمایا اور چالیس یہودیوں کو بھی کھلایا پلایا (یعنی ان کی دعوت کی) چناچہ یہ سلسلہ قیامت کے دن تک ان کیلئے جاری رہے گا (یعنی بنی عریض کیلئے یہ دوامی پٹہ اور وثیقہ ہوگیا) ۔ امام مالک ‘ امام احمد اور بخاری و مسلم نے صحیحین میں حضرت ابن عمر کی روایت سے اور امام احمد نے حضرت جابر ‘ حضرت ابوکبثہ انماری اور حضرت ابو حمید ساعدی کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مقام حجر (قوم ثمود کے مسکن قدیم) کی طرف سے گذرے تو آپ نے چادر مبارک بطور نقاب کے اپنے چہرہ پر ڈال لی۔ آپ اس وقت کجاوہ پر سوار تھے اور اونٹنی کو تیز دوڑایا کہ قوم ثمود کے گھر پیچھے رہ گئے (آپ ان سے آگے بڑھ گئے) اور (آگے بڑھ کر) اترے۔ ساتھ والے حجر کے باشندوں کی طرف لپکے اور انہوں نے ان کنوؤں سے پانی کھینچا جن سے قوم ثمود پانی پیتی تھی ‘ اسی پانی سے لوگوں نے آٹا گوندھا اور گوشت کی ہانڈیاں چڑھائیں۔ جب یہ اطلاع حضور ﷺ کو پہنچی تو آپ نے نماز کیلئے ندا کرائی۔ جب سب لوگ جمع ہوگئے تو فرمایا : ان لوگوں کے مکانوں میں تم لوگ نہ داخل ہو جنہوں نے اپنے اوپر خود ظلم کیا تھا ‘ کہیں تم پر بھی وہ عذاب نہ آجائے جو ان پر آیا تھا۔ ہاں روتے ہوئے (وہاں جاسکتے ہو) ان کنوؤں کا پانی بھی نہ پیو اور نماز کیلئے اس پانی سے وضو بھی نہ کرو۔ ہانڈیوں کو الٹ دو اور گوندھا ہوا آٹا اونٹوں کو کھلا دو ۔ اس کے بعد حضور ﷺ یہاں سے روانہ ہو کر اس کنویں پر پہنچے جس کا پانی (حضرت صالح کی) اونٹنی پیا کرتی تھی اور فرمایا : معجزات طلب نہ کرو ‘ قوم صالح نے معجزات طلب کئے تھے۔ انہوں نے اپنے پیغمبر سے درخواست کی تھی کہ معجزہ پیش کریں۔ چناچہ اللہ نے (پہاڑ کے اندر سے) اونٹنی بطور معجزہ برآمد کردی تھی۔ اونٹنی اس گھاٹی سے (پانی پر) آتی تھی اور اس گھاٹی سے نکل کر جاتی تھی۔ اونٹنی ایک دن ان کا سارا پانی پی جاتی تھی (اور قوم کے جانوروں کو اور آدمیوں کو اس روز پانی نہیں ملتا تھا) ایک دن لوگ اس اونٹنی کا دودھ پی کر گذارا کرتے تھے۔ آخر انہوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں (اور اس کو قتل کردیا) نتیجہ یہ ہوا کہ ایک چیخ سب پر ایسی پڑی جس کی وجہ سے اس آسمان تلے ان میں کا کوئی شخص سوائے ایک آدمی کے زندہ نہ بچا ‘ سب کو اللہ نے ٹھنڈا کردیا۔ یہ شخص کعبہ کے اندر تھا (اسلئے بچ گیا) عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ﷺ ! وہ کون شخص تھا ؟ فرمایا : ابو رغال۔ پھر یہ بھی جب حرم خداوندی سے باہر نکلا تو اس پر بھی ویسا ہی عذاب آپہنچا جیسا دوسرے قوم والوں پر آیا تھا۔ تم کو ایسے لوگوں کے پاس نہ جانا چاہئے جن پر اللہ نے غضب نازل کیا تھا۔ ایک آدمی نے اس (بیان) پر تعجب کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا : میں اس سے بھی زیادہ تعجب آفریں بات کی تم کو خبر دیتا ہوں۔ ایک آدمی جو تم میں سے ہی ہے ‘ تم کو گزشتہ لوگوں کے واقعات بتارہا ہے اور جو آئندہ تمہارے بعد ہونے والے واقعات ہوں گے ‘ ان کی بھی اطلاع دے رہا ہے۔ تم استقامت رکھو اور سیدھی چال چلو ‘ تم کو عذاب دینے کی اللہ کچھ بھی پرواہ نہیں کرتا۔ آئندہ اللہ کچھ لوگ ایسے پیدا کرے گا جو اپنے اوپر سے کچھ بھی دفع نہ کرسکیں گے۔ آج رات ایک تیز ہوا چلے گی ‘ کوئی کھڑا نہ رہے۔ جس کے پاس اونٹ ہو ‘ وہ اونٹ کے دھنگنا مضبوط باندھ دے۔ تم میں سے کوئی بغیر کسی کو ساتھ لئے باہر نہ نکلے۔ حضور ﷺ کی ہدایت کے بموجب لوگوں نے عمل کیا ‘ لیکن بنی ساعد کے دو آدمی اس ہدایت پر عمل نہ کرسکے۔ ایک تو رفع حاجت کیلئے باہر گیا ہوا تھا اور دوسرا اپنا اونٹ ڈھونڈنے (کہیں) گیا تھا۔ جو رفع حاجت کیلئے گیا تھا ‘ اس کو راستہ پر ہی ہوا نے آ دبایا اور اس کا گلا گھونٹ دیا اور جو اونٹ ڈھونڈنے گیا تھا ‘ ہوا نے اس کو اڑا کر قبیلۂ طے کے پہاڑ پر جا پھینکا۔ رسول اللہ ﷺ کو اس بات کی اطلاع دی گئی تو فرمایا : کیا میں نے تم کو بغیر کسی کو ساتھ لئے باہر نکلنے کی ممانعت نہیں کردی ؟ جو سخص راستہ میں گلوبستہ ہوگیا تھا ‘ حضور ﷺ نے اس کیلئے دعا فرمائی اور وہ تندرست ہوگیا اور دوسرے شخص کو قبیلۂ طے نے (زندہ حالت میں) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ یہ شخص اس وقت خدمت گرامی میں پہنچا جب آپ مدینہ واپس آ چکے تھے۔ پانی کیلئے دعا کرنے کا قصہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔ محمد بن عمر اور محمد بن اسحاق کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی کھو گئی۔ لوگ اس کی تلاش میں نکلے۔ زید بن لصیب قبیلۂ بنی قنیقاع کا ایک یہودی تھا جو مسلمان ہوگیا تھا مگر تھا دل میں منافق اور حضرت عمارہ بن حزم کے پڑاؤ پر رہتا تھا ‘ یہ کہنے لگا : محمد ﷺ نبی ہونے کا اور آسمانی خبریں دینے کا تو دعویٰ کرتے ہیں لیکن خود اتنا بھی نہیں جانتے کہ اونٹنی کہاں گئی۔ حضرت عمارہ اس وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھے (منافق نے یہ بات ان کی غیرموجودگی میں کہی تھی) رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : منافق نے ایسی بات کہی ہے۔ خدا کی قسم ! میں تو اتنا ہی جانتا ہوں ‘ جتنا اللہ نے مجھے بتادیا ہے۔ اب مجھے اللہ نے اطلاع دی ہے کہ اونٹنی وادی کے اندر فلاں گھاٹی میں ہے۔ حسب فرمان لوگ وہاں گئے ‘ اونٹنی مل گئی ‘ اس کو لے آئے۔ اب عمارہ ‘ زید کے پاس پہنچے اور اس کا گلا دباتے ہوئے کہا : اللہ کے دشمن میرے پڑاؤ سے نکل جا ‘ میرے ساتھ نہ رہ۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ زید نے (اس کے بعد سچے دل سے) توبہ کرلی تھی۔ کچھ کہتے ہیں کہ وہ منافق ہی رہا اور اسی حالت میں مرا۔ اسی غزوہ میں وہ واقعہ بھی ہوا تھا جو مسلم نے حضرت مغیرہ بن شعبہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ فجر سے پہلے رفع حاجت کیلئے گئے (لوگ نماز کا انتظار کرتے رہے) جب اجالا زیادہ ہوگیا اور سورج نکلنے کا اندیشہ ہوگیا تو انہوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کو آگے بڑھا دیا اور آپ نماز پڑھانے کیلئے کھڑے ہوگئے۔ رفع حاجت کے بعد رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور وضو کرنا چاہا مگر کرتہ کی آستینیں تنگ تھیں (اوپر نہ چڑھ سکیں) آپ نے اندر سے آستینوں سے ہاتھ باہر نکال کر وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا ‘ پھر ایک رکعت جماعت کے ساتھ پڑھی اور ایک رکعت (فوت شدہ) ادا کی ‘ پھر سلام پھیرا اور فرمایا : تم نے اچھا کیا۔ نماز کو وقت پر پڑھا کرو۔ کسی نبی کی وفات اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک اس نے اپنی امت کے کسی نیک آدمی کے پیچھے کوئی نماز نہ پڑھ لی ہو (یعنی میں نے عبدالرحمن کے پیچھے جو نماز پڑھی ‘ یہ کوئی نئی بات نہیں نہ اس سے میری توہین ہوئی۔ ہر نبی کی یہی سنت ہے ‘ ہر نبی نے اپنی وفات سے پہلے اپنی امت کے کسی مرد صالح کے پیچھے نماز ضرور پڑھی ہے) ۔ احمد اور طبرانی کا بیان ہے کہ حضرت سہیل بن بیضاء کو رسول اللہ ﷺ نے اپنی اونٹنی پر اپنے پیچھے بٹھا لیا اور بلند آواز سے فرمایا : سہیل ! سہیل نے عرض کیا : میں حاضر ہوں۔ حضور ﷺ نے یہ لفظ تین مرتبہ فرمایا اور ہر بار سہیل نے جواب میں لبیک کہا۔ اس سے لوگ سمجھے کہ حضور ﷺ کا مقصد ہم کو خطاب کرنا ہے ‘ چناچہ سب جمع ہوگئے۔ جب سب آگئے تو ارشاد ہوا : جس نے شہادت دی کہ اللہ واحد کے سوا کوئی معبود نہیں ‘ اس کا کوئی شریک نہیں تو اللہ نے اس کیلئے دوزخ کو حرام کردیا۔ محمد بن عمر نے اور دلائل میں ابو نعیم نے بیان کیا ہے کہ ایک بڑا سانپ (ایک بار) لوگوں کے راستہ میں آپڑا۔ راوی نے سانپ کی بڑائی اور موٹائی کا ذکر کیا ہے (یعنی بڑا موٹا سانپ تھا) پھر رسول اللہ ﷺ کی طرف وہ سانپ بڑھا اور آکر کھڑا ہوگیا ‘ آپ اس وقت اونٹنی پر سوار تھے۔ لوگ حضور ﷺ کو دیکھ رہے تھے۔ اونٹنی کھڑی ہوگئی ‘ فرمایا : یہ سانپ آٹھ جنات کی اس جماعت میں سے ایک ہے جو قرآن سننے میرے پاس آئے ہیں۔ یہ تم کو سلام کہہ رہا ہے۔ سب حاضرین نے جواب دیا : و (علیہ السلام) ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ ۔ امام احمد نے صحیح سند سے حضرت حذیفہ کے حوالہ سے حضرت معاذ کا بیان نقل کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : انشاء اللہ کل تم تبوک کے چشمہ پر پہنچ جاؤ گے اور دن چڑھے پہنچو گے۔ جو شخص (پہلے) پہنچ جائے وہ میرے پہنچنے تک پانی کو ہاتھ نہ لگائے۔ چناچہ (حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق) ہم وہاں پہنچ گئے مگر ہم سے پہلے دو آدمی وہاں پہنچ چکے تھے۔ چشمہ سے پانی (پتلی دھار سے) چمڑے کے تسمے کی طرح بہہ رہا تھا۔ حضور ﷺ نے ان دونوں آدمیوں سے دریافت فرمایا : کیا تم نے پانی کو چھوا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : جی ہاں۔ آپ نے ان کو سخت سست کہا اور جو کچھ اللہ نے چاہا ‘ ان کو فرمایا۔ پھر لوگوں نے چلوؤں سے تھوڑا تھوڑا پانی لے کر ایک مشکیزہ میں بھرا اور رسول اللہ ﷺ نے اس میں اپنے ہاتھ بھی دھوئے اور منہ بھی اور کلی بھی (اس میں) کی۔ اس کے بعد لوٹا کر پانی کو چشمہ میں ڈال دیا ‘ ڈالتے ہی پانی بکثرت بہنے لگا۔ ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ پانی (زمین پھٹ کر نکلا اور اس) سے ایسا تڑاکا ہوا کہ سننے والے کہنے لگے : یہ آواز تو بجلی کڑکنے کی طرح ہے۔ تبوک میں اسی پانی کا فوارہ موجود ہے۔ پھر حضور ﷺ نے فرمایا : معاذ ! اگر تمہاری زندگی کچھ طویل ہوئی تو دیکھ لو گے کہ یہاں آس پاس باغ ہوجائیں گے۔ بیہقی اور ابونعیم نے عروہ کی روایت سے یہ الفاظ نقل کئے ہیں کہ تبوک کا چشمہ فوراً اچھلنے لگا یہاں تک کہ بھر گیا اور اب تک اسی طرح ہے۔ امام احمد اور نسائی نے حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے بیان کیا ہے کہ تبوک کے سال ایک روز رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا ‘ اس وقت کھجور کے ایک درخت سے آپ پشت کا سہار 1 لگائے ہوئے تھے ‘ حضور ﷺ نے بلند آواز سے فرمایا : کیا میں تم کو بتاؤ کہ سب سے اچھا آدمی کون ہے اور سب سے برا کون ہے ؟ سب سے اچھے آدمیوں میں سے تو وہ شخص ہے جو گھوڑے یا اونٹ کی پشت پر سوار ہو کر پیدل سامان اٹھائے ہوئے مرتے دم تک راہ خدا میں جہاد میں مشغول رہتا ہے اور بدترین آدمیوں میں سے وہ شخص ہے جو اللہ کی کتاب (تو) پڑھتا ہے (مگر) اس کے احکام کی طرف متوجہ ہو کر (اپنی کسی خواہش سے) باز نہیں آتا۔ ابو داؤد نے حضرت عمر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں (بکری یا بھیڑ وغیرہ کا) پہلو (یعنی ایک طرف کا سینہ) پیش کیا گیا۔ آپ نے چھری منگوائی اور بسم اللہ کہہ کر اس کو کاٹا۔ امام احمد اور ابو داؤد کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک لڑکا آپ کے سامنے سے گذرا۔ آپ نے فرمایا : اے اللہ ! اس کے اثر (نشان قدم یا قدم) کو کاٹ دے۔ چناچہ وہ لنجا ہوگیا (پاؤں سے معذور ہوگیا) ۔ محمد بن عمر نے بنی سعد کے ایک آدمی کی روایت سے بیان کیا کہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ چند آدمیوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ میں خدمت گرامی میں حاضر ہوا ‘ حضور ﷺ نے فرمایا : بلال ! ہم کو کھانا کھلاؤ۔ حضرت بلال نے کئی بار اپنے ہاتھ سے گھی اور پنیر میں گوندھی ہوئی کھجوریں نکالیں ‘ ہم سب نے وہ کھائیں اور سب شکم سیر ہوگئے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! پہلے تو میں اکیلا اتنا کھالیا کرتا تھا۔ فرمایا : کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے اور مؤمن ایک آنت میں کھاتا ہے۔ پھر دوسرے روز جب میں خدمت گرامی میں پہنچا تو آپ کے آس پاس دس آدمی بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت بلال سے فرمایا : بلال ! ہم کو کھانے کو دو ۔ حضرت بلال تھیلی سے مٹھی بھر بھر کر چھوارے نکالنے لگے۔ فرمایا : نکالو ‘ اور مالک عرش کے نادار ہونے کا اندیشہ نہ کرو (یعنی اللہ کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ‘ وہ کل کو پھر دے گا) حضرت بلال نے پوری تھیلی لا کر بکھیر دی ‘ میرے اندازہ میں کل چھوارے دو سیر ہوں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے دست مبارک چھواروں پر رکھ دیا اور فرمایا : بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ۔ سب نے کھایا ‘ میں نے بھی ان کے ساتھ کھایا ‘ کھا چکنے کے بعد بھی چمڑے کے دسترخوان پر اتنے ہی چھوارے معلوم ہوتے تھے جتنے حضرت بلال لائے تھے ‘ معلوم ہوتا تھا کہ ہم نے ایک چھوارہ بھی نہیں کھایا۔ (تیسرے روز) صبح کو میں پھر گیا اور گزشتہ دن والی جماعت بھی دوبارہ آگئی ‘ وہ دس تھے یا ایک دو زیادہ تھے۔ حضور ﷺ نے حضرت بلال سے فرمایا : بلال ! کھانا کھلاؤ۔ حضرت بلال وہی تھیلی لے آئے ‘ میں اس کو پہچانتا تھا ‘ لا کر انہوں نے تھیلی بکھیر دی۔ حضور ﷺ نے اس طر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور فرمایا : اللہ کا نام لے کر کھاؤ۔ ہم نے کھایا ‘ سب سیر ہوگئے ‘ پھر چھوارے اتنے ہی ہوگئے جتنے بکھیرے تھے۔ ایسا تین روز ہوا۔ ایک اور قصہ میں محمد بن عمر ‘ ابو نعیم اور ابن عساکر نے حضرت عرباض بن ساریہ کی روایت سے بیان کیا ہے ‘ حضرت عرباض کا کہنا ہے کہ ہم تین آدمی تھے ‘ میں اور جعال بن سراقہ اور عبد اللہ بن مغفل مزنی۔ ہم سب بھوکے تھے ‘ رسول اللہ ﷺ کے دروازے پر پڑے زندگی کے دن گذارتے تھے۔ ایک روز رسول اللہ ﷺ اپنے خیمہ میں داخل ہوئے ‘ ساتھ میں آپ کی بی بی حضرت ام سلمہ بھی تھیں۔ اندر جا کر کچھ کھانے کو ڈھونڈھا مگر کچھ نہیں ملا۔ باہر نکل کر حضرت بلال کو آواز دی اور فرمایا : ان لوگوں کے طعام شب کیلئے کچھ ہے ؟ حضرت بلال نے تھیلیاں لے کر ایک تھیلی جھاڑنی شروع کی اور تھیلیوں میں سے ایک ایک دو دو چھوارے گرنے لگے۔ کل سات چھوارے گرے ‘ ان کو ایک پلیٹ میں رکھ دیا گیا۔ پھر حضور ﷺ نے ان پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور بسم اللہ کی اور فرمایا : بسم اللہ کر کے کھاؤ۔ ہم نے کھایا۔ میں نے گن کر 54 چھوارے کھائے۔ میں گنتا جا رہا تھا اور ان کی گٹھلیاں دوسرے ہاتھ میں رکھ رہا تھا۔ میرے دونوں ساتھی بھی وہی کر رہے تھے جو میں کر رہا تھا (اوسطاً ) ہم میں سے ہر ایک نے پچاس چھوارے کھائے ‘ آخر ہاتھ کھینچ لئے لیکن وہ سات چھوارے ویسے کے ویسے ہی رہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : بلال ! ان کو اٹھا لو ‘ سب کا پیٹ بھر گیا ‘ اب کوئی نہیں کھاتا۔ جب صبح ہوئی اور رسول اللہ ﷺ نے فجر کی نماز پڑھ لی تو خیمہ کی طرف جا کر خیمہ کے آگے صحن میں بیٹھ گئے۔ ہم بھی گرداگرد بیٹھ گئے ‘ ہم دس آدمی تھے۔ فرمایا : کیا تم لوگوں کیلئے صبح کا کھانا ہے ؟ (انکار کرنے کے بعد) آپ نے چھواروں سمیت حضرت بلال کو طلب فرمایا اور دست مبارک چھواروں کی پلیٹ پر رکھ دیا ‘ پھر فرمایا : بسم اللہ کر کے کھاؤ۔ حسب الحکم ہم نے کھایا۔ قسم ہے اس کی جس نے حضور ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا تھا ! ہم دس تھے ‘ سب کے پیٹ بھر گئے۔ سیر ہونے کے بعد سب نے ہاتھ اٹھا لئے مگر چھوارے ویسے ہی رہے جیسے تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اب مجھے اللہ سے (مزید دعا کرتے) شرم آتی ہے ‘ اگر یہ بات نہ ہوتی تو مدینہ پہنچنے تک ہم انہی چھواروں کو کھاتے رہتے۔ اتفاقاً شہر کا ایک چھوٹا لڑکا سامنے سے آگیا ‘ رسول اللہ ﷺ نے چھوارے دست مبارک میں لے کر اس کو دے دئیے وہ چھوارے چباتا ‘ پشت پھیر کر چلا گیا۔ محمد بن عمر کا بیان ہے کہ تبوک میں ایک تیز ہوا چلی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک بڑے منافق کی موت کیلئے (یہ ہوا چلی ہے) چناچہ جب لوگ مدینہ کو پہنچے تو معلوم ہوا کہ ایک بہت بڑا منافق مرگیا۔ محمد بن عمر کا بیان ہے کہ بنی سعد کے کچھ شکستہ حال لوگ خدمت گرامی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! ہم خدمت گرامی میں حاضر ہوئے ہیں اور بال بچوں کو ایک ایسے کنویں پر چھوڑ آئے ہیں جس میں پانی کم ہے اور یہ سخت گرمی ہے۔ اگر ہم وہاں کی سکونت ترک کردیں تو اندیشہ ہے کہ ہم کو کاٹ دیا جائے گا کیونکہ ہمارے اطراف میں ابھی اسلام نہیں پہنچا ہے۔ آپ ہمارے پانی کیلئے اللہ سے دعا فرمائیں ‘ اگر ہم (بقدر ضرورت) سیراب ہوگئے تو ہم سے زیاہ باعزت (وہاں) کوئی قوم نہ ہوگی ‘ ہمارے دین کا کوئی مخالف ہمارے پاس پھٹکنے بھی نہ پائے گا۔ فرمایا : چند پتھریاں لا کر مجھے دے دو ۔ ایک شخص نے تین پتھریاں لا کر دے دیں۔ حضور ﷺ نے پتھریوں کو ہاتھ میں لے کر ملا اور فرمایا : ان کو لے جا کر ایک ایک کر کے بسم اللہ کر کے کنویں میں ڈال دو ۔ لوگ واپس چلے گئے اور حسب ہدایت عمل کیا ‘ فوراً کنواں ابل پڑا۔ پھر ان لوگوں نے اپنے مخالف مشرکوں کو وہاں سے نکال دیا اور روند ڈالا۔ رسول اللہ ﷺ جب لوٹ کر مدینہ پہنچے تو بنی سعد والے آس پاس کے سب لوگوں کو اسلام پر متفق کرچکے تھے اور سب مسلمان ہو کر رسول اللہ ﷺ کے مطیع ہوچکے تھے۔ طبرانی نے حضرت ابن عمر و معاویہ بن ابی سفیان کی روایت سے اور بیہقی و ابن سعد نے حضرت انس کی روایت سے بیان کیا ‘ راوی کا بیان ہے : (ایک روز) طلوع کے وقت سورج میں ایسی چمک ‘ نور اور شعاعیں دکھائی دیں کہ گذشتہ ایام میں میں نے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ حضرت جبرئیل آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے اس کا سبب دریافت کیا۔ حضرت جبرئیل نے کہا : آج مدینہ میں معاویہ بن معاویہ مزنی کا انتقال ہوگیا ‘ اس (شعاعی تغیر) کی یہی وجہ ہے۔ اللہ نے ستر ہزار فرشتے ان کی جنازہ کی نماز پڑھنے بھیجے ہیں ‘ کیا آپ بھی ان کی نماز پڑھیں گے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہاں۔ چناچہ حضور ﷺ نے (غائبانہ) نماز جنازہ پڑھی اور ملائکہ نے آپ کے پیچھے دو صفیں بنا لیں۔ نماز سے فارغ ہو کر حضرت جبرئیل سے فرمایا : معاویہ اس مرتبہ کا مستحق کس سبب سے قرار پایا ؟ حضرت جبرئیل نے جواب دیا : وہ قل ہو اللہ احد سے محبت رکھتا تھا۔ اٹھتے بیٹھے ‘ سوار ‘ پیدل ہر حالت میں قل ہو اللہ پڑھا کرتا تھا۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے : یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی مروی ہے اور ایک سند دوسری سند کی تائید کرتی ہے۔ طبرانی اور ابو نعیم نے عمرو اسلمی کے دادا کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب غزوۂ تبوک کیلئے نکلے تو اس سفر میں میں حضور ﷺ کی خدمت پر تھا۔ میں نے دیکھا کہ کُپّی میں گھی کم رہ گیا ہے اور رسول اللہ ﷺ کیلئے مجھے کھانا تیار کرنا تھا ‘ اسلئے کُپّی کو دھوپ میں رکھ دیا (تاکہ گھی پگھل کر یکجا ہوجائے تو نکالا جاسکے) کپی کو دھوپ میں رکھ کر میں سو گیا۔ کپی میں ابال آیا اور گھی کے جوش مارنے کی آواز سے میں بیدار ہوگیا۔ میں نے فوراً اپنے ہاتھ سے کپی کا منہ بند کرلیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تو اس کو چھوڑ دیتا تو وادی گھی سے بہہ نکلتی (یعنی پانی کی طرح وادی میں گھی کا سیلاب آجاتا) حارث بن اسامہ نے حضرت بکر بن عبد اللہ مزنی کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص یہ خط قیصر کے پاس لے جائے گا اس کیلئے جنت ہے۔ ایک شخص نے عرض کیا : خواہ قیصر خط کو قبول نہ کرے ؟ (فرمایا : ہاں) وہ شخص خط لے کر قیصر کے پاس پہنچا۔ قیصر نے خط پڑھ کر کہا : تم اپنے نبی سے جا کر کہہ دو کہ میں ان کا تابعدار ہوں ‘ مگر میں اپنی حکومت نہیں چھوڑنا چاہتا۔ قیصر نے اس شخص کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کچھ اشرفیاں بھی بھیجیں۔ قاصد نے لوٹ کر رسول اللہ ﷺ سے قیصر کا پیام عرض کردیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اس نے جھوٹ کہا۔ پھر اشرفیاں آپ نے تقسیم کر دیں امام احمد اور ابو یعلی نے حسن سند کے ساتھ سعید بن ابی راشد کی روایت سے ہرقل کے قاصد تنوخی کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تبوک پہنچ کر دحیہ کلبی کو ہرقل کے پاس (خط دے کر) بھیجا۔ ہرقل کے پاس نامۂ مبارک پہنچ گیا تو اس نے روم کے عیسائی علماء اور پادریوں کو بلوایا۔ جب سب آگئے تو کمرہ کا بیرونی دروازہ بند کرا دیا ‘ پھر حاضرین سے کہا : تم دیکھ رہے ہو کہ یہ شخص (یعنی رسول اللہ ﷺ تبوک میں فروکش ہے اور اس نے تین باتوں کی مجھے اجازت دی ہے کہ ان تین میں سے ایک بات کو اختیار کرلوں۔ (1) یا تو مذہب میں میں اس کا اتباع کرلوں (یعنی عیسائیت چھوڑ کر مسلمان ہوجاؤں) (2) یا ہم اپنے ملک پر قابض رہیں اور ملک کی پیداوار کا کچھ حصہ (بطور جزیہ) میں اس کو دے دوں ( 3) یا ہم اس سے جنگ کریں۔ تم کتابوں میں جو کچھ پڑھتے ہو ‘ اس سے واقف ہو ‘ اسلئے آؤ ہم اس کے دین کا اتباع کرلیں یا اپنی زمین پر قابض رہتے ہوئے اپنا مال (بطور جزیہ) اس کو ادا کردیں (لڑنے میں تو کامیابی ممکن نہیں) یہ سن کر سب غضبناک ہو کر ایک آواز ہوگئے اور غصہ کا جواب دیا ‘ پھر اٹھ کر نکل چلے اور بولے : تم ہم کو نصرانیت چھوڑ دینے یا حجاز کے ایک اعرابی کے غلام بن جانے کا مشورہ دے رہے ہو۔ ہرقل نے خیال کیا کہ اگر یہاں سے یہ یونہی چلے گئے تو رومیوں کو میرے خلاف بگاڑیں گے ‘ اسلئے فوراً اوپر چڑھ کر اس نے کہا : میں نے تو یہ بات صرف تمہاری دینی حمیت و پختگی کو جانچنے کیلئے کہی تھی (سب لوگ واپس آگئے) ایک شخص تجیب تھا ‘ جو عرب تھا اور عرب کے عیسائیوں کا سرگروہ اس کو مقرر کیا گیا تھا ‘ ہرقل نے اس کو بلایا اور اس کو حکم دیا کہ کسی ایسے شخص کو لاؤ جو بات یاد رکھ سکے اور جس کی زبان عربی ہو۔ میں اس کو اس (مدعی نبوت) کے خط کا جواب دے کر بھیجنا چاہتا ہوں۔ چناچہ (تجیب کی معرفت) مجھے بلوایا گیا اور ہرقل نے مجھے ایک خط دے کر کہا : میرا یہ خط اس شخص کے پاس لے جاؤ اور جو بات تم اس سے سنو ‘ اس کو یاد رکھنا۔ تین چیزیں یاد رکھنے کے قابل ہیں : (1) اس نے جو خط بھیجا ہے ‘ اس کا کچھ تذکرہ کرتا ہے یا نہیں (2) یہ بھی غور کرنا کہ میرے اس خط کو پڑھ کر وہ رات کا (لفظ اپنے کلام میں) ذکر کرتا ہے یا نہیں (3) اس کی پشت کو دیکھنا کہ پشت پر کوئی چیز تمہارے لئے شک آفریں ہے یا نہیں۔ میں ہرقل کا خط لے کر تبوک پہنچا ‘ اس وقت رسول اللہ ﷺ اپنے صحابیوں کے ساتھ پانی (یعنی چشمہ) پر گوٹ مار کر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے حاضرین سے پوچھا : تمہارا سردار کہاں ہے ؟ لوگوں نے کہا : یہ موجود ہیں۔ میں چل کر ان کی طرف گیا اور سامنے جا کر بیٹھ گیا اور ان کو وہ خط دے دیا۔ انہوں نے خط کو گودی میں رکھ لیا اور فرمایا : تم کس قبیلہ سے ہو ؟ میں نے کہا : تنوخ سے۔ فرمایا : کیا تم کو اسلام کی رغبت ہے جو خالص توحید کا مسلک اور تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے۔ میں نے کہا : میں ایک قوم کا قاصد ہوں اور ایک قوم کے مذہب پر ہوں اور واپس پہنچنے تک اسی مذہب پر رہوں گا۔ آپ ہنس دیئے اور فرمایا : اِنَّکَ لاَ تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَٰلکِْنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ وَھُوَ اَعْلَمُ بالْمُھْتَدِیْنَ ۔ اے تنوخی ! میں نے ایک خط کسریٰ کو بھیجا تھا ‘ اس نے خط کو پارہ پارہ کردیا۔ اللہ اس کو اور اس کے ملک کو پارہ پارہ کر دے گا۔ میں نے نجاشی کو بھی خط بھیجا تھا ‘ اس نے بھی خط کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ اللہ اس کو اور اس کے ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور میں نے تیرے آقا کو بھی خط لکھا تھا ‘ اس نے میرے خط کو (تھام لیا) روک لیا (نہیں پھاڑا) اسلئے جب تک اس کی زندگی میں بہتری ہوگی ‘ لوگ اس کا رعب محسوس کرتے رہیں گے (یعنی اس کی حکومت باقی رہے گی) میں نے کہا : میرے آقا نے جن تین باتوں کو یاد رکھنے کی ہدایت کی تھی ‘ ان میں سے ایک تو یہ ہے۔ چناچہ تیردان سے میں نے ایک تیر نکال کر (اس کی نوک سے) تلوار کی نیام پر یہ بات لکھ لی۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے میرا دیا ہوا خط اپنے بائیں ہاتھ پر بیٹھے ہوئے آدمی کو دے دیا۔ میں نے کہا : یہ خط پڑھنے والا کون ہے ؟ لوگوں نے کہا : معاویہ۔ میرے آقا کے خط میں لکھا ہوا تھا : آپ مجھے جنت کی طرف بلا رہے ہیں جس کی پہنائی آسمان و زمین (کے برابر) ہے اور وہ مؤمنوں کیلئے تیار کی گئی ہے تو بتائیے کہ دوزخ کہاں ہے (کیا اس سارے جہاں سے باہر ہے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سبحان اللہ ! رات (سارے جہان میں یا کسی ملک میں) آجاتی ہے تو دن کہاں چلا جاتا ہے ؟ میں نے فوراً ترکش سے تیر نکال کر (اس کی نوک سے) تلوار کی نیام پر یہ بات لکھ لی۔ خط پڑھنے سے فارغ ہو کر فرمایا : تمہارا حق ہے ‘ تم قاصد ہو ‘ اگر ہمارے پاس کچھ انعام دینے کو ہوتا تو ہم تم کو دیتے ‘ مگر ہم نادار مسافر ہیں۔ فوراً جماعت میں سے ایک آدمی نے پکار کر کہا : میں اس کو انعام دوں گا۔ چناچہ اس نے اپنا سامان کھولا اور ایک زرد رنگ کا جوڑا کپڑوں کا نکال کر میری گود میں رکھ دیا۔ میں نے پوچھا : یہ انعام دینے والا کون ہے ؟ لوگوں نے کہا : عثمان۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس شخص کو مہمان کون رکھے گا ؟ ایک انصاری جوان بولا : میں۔ چناچہ انصاری کھڑا ہوا ‘ میں بھی اس کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ جب مجلس سے میں نکل گیا تو رسول اللہ ﷺ نے پکار کر فرمایا : تنوخی ! ادھر آؤ۔ میں تیزی کے ساتھ لپکتا پہنچا اور اسی جگہ بیٹھ گیا جو حضور ﷺ کے سامنے تھی۔ آپ نے اپنی پشت سے گوٹ کھول دی اور فرمایا : ادھر جاؤ (یعنی پشت کی طرف بیٹھو) میں پشت کی طرف جا کر بیٹھ گیا تو مجھے ایک موٹی سینگی کی طرح مہر نبوت دکھائی دی جو شانہ کے موڑ کی جگہ پر تھی۔ محمد بن عمر کا بیان ہے : پھر یہ شخص واپس چلا گیا اور جا کر ہرقل سے ساری روئیداد کہہ دی۔ ہرقل نے اپنی قوم کو رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کی دعوت دی ‘ لیکن انہوں نے انکار کردیا یہاں تک کہ اس کو اپنی حکومت کے زوال کا اندیشہ ہوگیا۔ اس وقت وہ حمص میں تھا ‘ اس نے کوئی حرکت نہیں کی نہ اپنی جگہ سے سرکا۔ جس نے رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دی تھی کہ ہرقل اپنے ساتھیوں کو تیار کر کے سب کو لے کر وادئ شام کے قریب آگیا ہے ‘ اس کی یہ اطلاع غلط تھی۔ ہرقل نے تو اس کا ارادہ بھی نہیں کیا نہ اس کا یہ مقصد تھا۔ سہیلی نے ذکر کیا ہے کہ ہرقل نے کچھ تحفے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجے تھے ‘ حضور ﷺ نے ان کو قبول فرما لیا اور مسلمانوں کو بانٹ دیا۔ ہرقل نے ایک منادی کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں یہ ندا کر دے کہ ہرقل ‘ محمد ﷺ پر ایمان لے آیا اور ان کا تابعدار ہوگیا۔ یہ اعلان سن کر مسلح فوجیں گھس آئیں اور ہرقل کو قتل کرنے کے ارادے سے قصر کا محاصرہ کرلیا۔ ہرقل نے ان کے پاس پیام بھیجا کہ میں تو تمہاری دینی پختگی کی جانچ کرنی چاہتا تھا۔ تمہارا یہ جوش دیکھ کر میں خوش ہوگیا (اب جاؤ) فوجی یہ بات سن کر ہرقل سے راضی ہوگئے (اور واپس چلے گئے) اس کے بعد ہرقل نے ایک خط لکھ کر دحیہ کے ہاتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا دیا ‘ خط میں لکھا تھا : میں بلاشبہ مسلم ہوں مگر بےبس ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے خط پڑھ کر فرمایا : اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا۔ اللہ کی قسم ! وہ مسلمان نہیں ہے ‘ عیسائیت پر قائم ہے۔ (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ کتابی یا آن لائن نسخے سے ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اس سے زیادہ نقل نہیں کیا جا رہا)
Top