Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 1
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ
بَرَآءَةٌ : بیزاری (قطعِ تعلق) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖٓ : اور اس کا رسول اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے عٰهَدْتُّمْ : تم سے عہد کیا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
(اے اہل اسلام اب) خدا اور اس کے رسول کی طرف سے مشرکوں سے جن سے تم نے عہد کر رکھا تھا بیزاری (اور جنگ کی تیاری) ہے
ہم حمد کرتے ہیں تیری ! اے وہ معبود کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ! ہم ہر عیب اور ہر خرابی سے تیری پاکی بیان کرتے ہیں ‘ تجھ سے مدد چاہتے ہیں اور تجھ سے مغفرت کے طلبگار ہیں۔ ہم شہادت دیتے ہیں کہ تو اقتدار کا مالک ہے ‘ جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلت نصیب کرتا ہے۔ تیرے ہی دست قدرت میں ہر بھلائی ہے۔ تو ہی بلاشبہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ تو ہمارا مالک ہے اور آسمان و زمین اور ان کی کائنات کا مالک ہے۔ ہم رحمت و سلامتی کی دعا کرتے ہیں محمد ﷺ کیلئے جو تیرے رسول و حبیب اور ہمارے آقا و مولیٰ ہیں اور تمام انبیاء اور رسولوں کیلئے اور تیرے تمام نیک بندوں کیلئے بھی۔ یہ سورة مدنی ہے ‘ اس میں 129 یا 130 آیات ہیں ابو عطیہ ہمدانی راوی ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے لکھ کر بھیجا : سورة برأت (خود) سیکھو اور اپنی عورتوں کو سورة نور سکھاؤ۔ میں کہتا ہوں : اس کی وجہ یہ ہے کہ سورة برأت میں ترغیب جہاد ہے اور سورة نور میں پردہ کی تلقین ہے (اوّل مردوں کا فریضہ ہے اور دوسرا عورتوں کا) حضرت عثمان بن عفان نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورة انفال اور سورة برأت کو ہم جوڑ کہا جاتا تھا ‘ اسی لئے سبع طوال میں میں نے ان کو ایک جگہ لکھوایا۔ اس سورة کے متعدد نام ہیں : (1) برأت ‘ کیونکہ اس میں کافروں سے بیزاری (اور دست برداری) کا اعلان ہے (2) سورة توبہ ‘ کیونکہ اس میں مسلمانوں کیلئے توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے (3) مقشقشہ (نفاق سے بیزار کرنے والی) ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے بروایت زید بن اسلم بیان کیا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر نے فرمایا : مقشقشہ کہنے کی یہ وجہ ہے کہ یہ نفاق سے بیزاری کا اظہار کرتی ہے (4) مُبَعْثِرَہ ‘ یہ نام ابن المنذر نے محمد ابن اسحاق کی روایت سے بیان کیا ہے۔ چونکہ لوگوں کے اندرونی رازوں کی یہ پردہ کشائی کر رہی ہے ‘ اسلئے اس کو مبعثرہ کہا گیا (5) البحوث ‘ یہ نام ابن ابی حاتم ‘ طبرانی اور حاکم نے ابو رشد حرانی کی روایت سے حضرت مقداد بن اسود کے حوالہ سے لکھا ہے (6) المثیرہ ‘ یہ نام ابن المنذر اور ابو الشیخ اور ابن ابی حاتم نے قتادہ کے حوالہ نقل سے کیا ہے۔ وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ سورة نفاق کی حالت اکھاڑ کر سامنے لاتی ‘ منافقوں کی پردہ دری کرتی اور ان کے نفاق کو کرید کر ظاہر کرتی ہے (7) مُنکِلَہ (عذاب والی) مُدَمُدِمَہ (تباہی لانے والی) (8) سورة عذاب ‘ یہ نام حضرت حذیفہ نے لیا ‘ فرمایا : جس کو تم سورة توبہ کہتے ہو ‘ وہ سورة عذاب ہے۔ خدا کی قسم ! اس نے کسی کو بغیر اثر انداز ہوئے نہیں چھوڑا۔ رواہ ابن ابی شیبہ والطبرانی وابوالشیخ والحاکم وابن مردویہ۔ حضرت ابن عباس نے بھی حضرت عمر کی طرف نسبت کرتے ہوئے اس کا نام سورة العذاب ذکر کیا ہے) خرجہ ابو عوانتہ وابن المنذر وابوالشیخ وابن مردویہ (9) الفاضحہ بھی اس کا نام ہے ‘ یہ منافقوں کو رسوا کرنے والی ہے۔ بغوی ناقل ہیں کہ حضرت سعید بن جبیر نے فرمایا : میں نے حضرت ابن عباس سے کہا : سورة توبہ۔ آپ نے فرمایا : وہ فاضحہ ہے ‘ پیہم نازل ہوتی رہی اور لوگوں کو (منافقوں کے حالات کی) اطلاع دیتی رہی یہاں تک کہ لوگوں کا یہ خیال ہوگیا کہ کسی کو بغیر تذکرہ کئے اس نے نہیں چھوڑا۔ میں نے کہا : سورة انفال۔ فرمایا : یہ سورة بدر ہے۔ میں نے کہا : سورة حشر۔ فرمایا : اس کو سورة نفیر کہو (اس میں قبروں سے مردوں کے نکلنے اور میدان میں جمع ہونے کا بیان ہے) ۔ سورۂ برأت کے شروع میں بسم اللہ کیوں نہیں ہے ؟ حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عثمان سے عرض کیا : الانفال مثانی میں سے ہے اور برأت مئین میں سے ‘ آپ حضرات نے دونوں کو ایک جگہ جمع کردیا اور دونوں کے بیچ میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی اور برأت کو سبع طوال میں درج کردیا ‘ اس کی کیا وجہ ؟ حضرت عثمان نے فرمایا : مختلف زمانوں میں رسول اللہ ﷺ پر متعدد سورتیں نازل ہونے کا سلسلہ جاری تھا۔ جب کچھ نازل ہوتا تھا تو آپ اپنے کاتب کو بلوا کر حکم دیتے تھے کہ اس آیت کو فلاں سورة میں رکھو۔ سورة انفال مدینہ کے ابتدائی ایام میں (یعنی ہجرت کے فوراً بعد) نازل ہوئی اور سورة برأت سب سے آخری زمانہ میں اور دونوں کا بیان باہم ملتا جلتا تھا اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی میں صراحت نہیں فرمائی کہ سورة برأت ‘ سورة انفال کا جزء ہے ‘ اسلئے میں نے دونوں کو یکجا کردیا اور برأت کو سبع طوال میں درج کردیا اور دونوں کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم کی سطر نہیں لکھی۔ رواہ البغوی بسندہ واحمد و ابوداؤد والنسائی وابن حبان والحاکم والترمذی۔ حاکم نے اس روایت کو صحیح اور ترمذی نے حسن کہا ہے۔ بسم اللہ کے ترک کی وجہ ایک یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ برأت کا نزول امان کا حکم اٹھا لینے کیلئے ہوا اور بسم اللہ الرحمن الرحیم امان (کی تعلیم) ہے۔ حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ میں نے حضرت علی بن ابی طالب سے دریافت کیا : برأت میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کیوں نہیں لکھی گئی ؟ فرمایا : بسم اللہ الرحمن الرحیم امان ہے اور برأت تلوار لے کر اتری ہے۔ کذا اخرج ابو الشیخ وابن مردویہ۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ صحابہ کی رائے باہم مختلف تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ سورة انفال و برأت کا مجموعہ ایک ہی سورت ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دونوں الگ الگ سورتیں ہیں۔ جو لوگ ان کو دو سورتیں کہتے ہیں ‘ ان کی رعایت کرتے ہوئے دونوں سورتوں کے درمیان خلاء (کچھ فاصلہ) چھوڑ دیا گیا اور جو لوگ دونوں کو دو مستقل سورتیں جانتے تھے اور اس مجموعے کو سبع طوال میں ساتویں سورت کہتے تھے جس کا نزول جہاد کے متعلق ہوا تھا تو ان کے قول کی رعایت کرتے ہوئے دونوں کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی گئی۔ بغوی نے لکھا ہے : اہل تفسیر کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ تبوک کی طرف چلے گئے تو منافق افواہیں پھیلانے اور ایسی باتیں کرنے لگے جن سے مسلمانوں میں سخت بےچینی پیدا ہوجائے اور جو معاہدے رسول اللہ ﷺ سے کرچکے تھے ‘ ان کو توڑنے لگے۔ میں کہتا ہوں : اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کو یقین تھا کہ مسلمان شاہ شام یعنی قیصر کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے (اور وہیں تباہ ہوجائیں گے) اس پر اللہ نے بھی اپنے پیغمبر کو کافروں سے معاہدہ ختم کرنے کا حکم دے دیا اور فرمایا : براء ۃ من اللہ ورسولہ الی الذین عاھدتم من المشرکین۔ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکوں (کے عہد) سے دست برداری ہے جن سے تم نے (بلا تعیین مدت) معاہدہ کر رکھا تھا۔ براء ۃ ‘ نشاء ۃ اور ناء ۃ کی طرح مصدر ہے۔ مبتداء محذوف ہے ‘ یعنی یہ برأت ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے مشرکوں تک پہنچنے والی ہے۔ زجاج نے کہا : مطلب یہ ہے کہ جب مشرکوں نے معاہدے توڑ دئیے تو اللہ اور اللہ کا رسول ﷺ بھی ان کو عہد دینے اور معاہدہ کو پورا کرنے سے بری الذمہ ہے۔ عَاھَدْتُمْ میں رسول اللہ اور مسلمانوں کو خطاب ہے۔ براءت کا تعلق اللہ اور رسول ﷺ سے ظاہر کیا گیا اور معاہدہ کا تعلق رسول اللہ اور مسلمانوں سے۔ اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ معاہدات کو توڑ دینا اور ختم کردینا رسول اللہ اور مسلمانوں پر واجب ہے۔
Top