Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 25
لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِیْ مَوَاطِنَ كَثِیْرَةٍ١ۙ وَّ یَوْمَ حُنَیْنٍ١ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَیْئًا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَۚ
لَقَدْ : البتہ نَصَرَكُمُ : تمہاری مدد کی اللّٰهُ : اللہ فِيْ : میں مَوَاطِنَ : میدان (جمع) كَثِيْرَةٍ : بہت سے وَّ : اور يَوْمَ حُنَيْنٍ : حنین کے دن اِذْ : جب اَعْجَبَتْكُمْ : تم خوش ہوئے (اترا گئے كَثْرَتُكُمْ : اپنی کثرت فَلَمْ تُغْنِ : تو نہ فائدہ دیا عَنْكُمْ : تمہیں شَيْئًا : کچھ وَّضَاقَتْ : اور تنگ ہوگئی عَلَيْكُمُ : تم پر الْاَرْضُ : زمین بِمَا رَحُبَتْ : فراخی کے باوجود ثُمَّ : پھر وَلَّيْتُمْ : تم پھرگئے مُّدْبِرِيْنَ : پیٹھ دے کر
خدا نے بہت سے موقعوں پر تم کو مدد دی ہے اور (جنگ) حنین کے دن۔ جب تم کو اپنی (جماعت کی) کثرت پر غرّہ تھا تو وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی۔ اور زمین باوجود (اتنی بڑی) فراخی کے تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر پھر گئے
لقد نصرکم اللہ فی مواطن کثیرۃ ویوم حنین اذ اعجبتکم کثرتکم بلاشبہ اللہ نے بہت موقعوں پر مدد کی اور حنین کے دن بھی جبکہ تم کو تمہاری کثرت نے مغرور کردیا تھا۔ مواطن کثیرۃ سے مراد ہے بدر ‘ قینقاع اور احزاب اور نضر کی لڑائیاں یا قریظہ ‘ حدیبیہ ‘ خیبر اور مکہ کی فتوحات۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ایک مہینہ کی مسافت سے (کافروں) پر میرا رعب ڈال کر میری مدد کی گئی۔ یوم حنین کا عطف مواطن پر ہے اور معطوف میں مضاف محذوف ہے ‘ یعنی مواطن حنین۔ یا معطوف علیہ میں محذوف ہے ‘ یعنی ایام مواطن کثیرۃ۔ یا مواطن سے مراد (مواقع نہیں بلکہ) ایام و اوقات ہیں ‘ جیسے مقتل حسین کا معنی ہے وقت شہادت حسین۔ کَثْرَتُکُمْحنین میں مسلمانوں کی تعداد بارہ یا چودہ ہزار تھی اور مشرک چار ہزار تھے۔ اکثر اہل تاریخ کا یہی قول ہے لیکن حافظ وغیرہ کے نزدیک کافروں کی تعداد مسلمانوں سے دوگنی تھی ‘ یعنی چوبیس ہزار یا اٹھائیس ہزار تھے۔ حنین ‘ مکہ اور طائف کے درمیان ذی المجاز کے متصل طائف کے قریب ایک وادی تھی ‘ مکہ سے اس کا فاصلہ کچھ اوپر دس میل تھا ‘ اس جگہ قبائل ہوازن بن منصور بن عکرمہ بن خصفہ بن قیس بن غیلان بن الیاس بن مضر سے رسول اللہ ﷺ کی جنگ ہوئی تھی۔ ہوازن کی مختلف شاخیں تھیں ‘ ایک شاخ بنی ثقیف بھی تھی۔ غزوۂ حنین اصحاب مغازی نے لکھا ہے کہ رمضان 8 ؁ھ میں جب رسول اللہ ﷺ نے مکہ فتح کرلیا تو سرداران ہوازن کو خوف پیدا ہوا کہ اب مسلمان کہیں ان پر حملہ نہ کردیں۔ آپس میں کہنے لگے : رسول اللہ ﷺ اب بالکل فارغ ہوگئے ہیں ‘ ہم پر حملہ کرنے سے ان کیلئے کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی ‘ اسلئے مناسب یہ ہے کہ ہم ہی ان پر حملہ کردیں (تاکہ ان کے حوصلے پست ہوجائیں) رائے یہ ہوئی کہ سب لوگوں کو جمع کر کے رسول اللہ ﷺ کے ادھر آنے سے پہلے تم ہی ان کی طرف چل دو ۔ مشورہ طے ہوگیا اور مالک بن عوف بن سعد بن ربیعہ نضری نے سب کو جمع کرلیا۔ یہ شخص آئندہ زندگی میں مسلمان ہوگیا تھا۔ ہوازن کے ساتھ تمام بنی ثقیف ‘ نضر اور جشم بھی جمع ہوگئے اور بنی ہلال کے کچھ لوگ یعنی سعد بن بکر کا قبیلہ جس کی تعداد سو سے بھی کم تھی ‘ وہ بھی آکر شریک ہوگیا۔ قیس بن غیلان کا کوئی آدمی شریک نہیں ہوا اور ہوازن میں سے بنی کعب اور بنی کلاب بھی نہیں آئے۔ ابن ابی براء نے ان کو شریک ہونے سے منع کردیا اور بولا : مشرق سے مغرب تک جو کوئی بھی محمد کی مخالفت کرے گا ‘ محمد اس پر غالب آجائیں گے (لہٰذا ان سے مقابلہ کرنا بیکار ہے) بنی جشم میں ایک (مشہور مدبر شاعر) سردار تھا جس کا نام تھا درید بن الصمہ ‘ اس کی عمر ایک سو ساٹھ یا ایک سو بیس برس تھی۔ قبیلہ والوں نے اس کی سوجھ بوجھ کی وجہ سے اس کو اپنا کمانڈر بنانا چاہا۔ درید بولا : مجھے آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا ‘ نہ سواری پر جم کر ٹھیک طرح سے بیٹھ سکتا ہوں ‘ پھر بھی تم کو مشورہ دینے کیلئے میں تمہارے ساتھ چلوں گا مگر شرط یہ ہے کہ تم میری مخالفت نہ کرنا۔ اگر میرے مشورہ کے خلاف کرو گے تو میں نہیں جاؤں گا۔ اس وقت مالک بن عوف تیس سالہ جوان ہوازن کا سردار تھا ‘ اس نے جواب دیا : ہم آپ کے مشورہ کے خلاف نہیں کریں گے۔ غر ض جب مسلمانوں پر چڑھائی کا پختہ ارادہ ہوگیا تو مالک کے حکم کے موافق سب لوگ عورتوں سمیت نکل کھڑے ہوئے اور اپنا مال بھی ساتھ لے لیا۔ مالک نے اوطاس میں لشکرگاہ بنائی اور چاروں طرف سے امداد آنی شروع ہوگئی۔ اب درید بن الصمہ آیا اور کہنے لگا : یہ مجھے بچوں کے رونے کی آواز کیسی سنائی دے رہی ہے ؟ اونٹوں کا بلبلانا ‘ گدھوں کا ڈونکنا ‘ بکریوں کا منمنانا اور گایوں کا چیخنا میں کیوں سن رہا ہوں ؟ لوگوں نے کہا : مالک کے حکم سے لوگ اپنے اہل و عیال اور جانوروں کو ساتھ لے کر آئے ہیں۔ درید نے مالک سے کہا : تم سب کو کیوں کھینچ کر لائے ہو ؟ مالک نے جواب دیا : میرا خیال ہے کہ جب ہر شخص کے ساتھ اس کے بیوی بچے اور جانور ہوں گے تو وہ ان کی حفاظت و مدافعت کیلئے جم کر لڑے گا (بھاگنے کا ارادہ بھی نہیں کرے گا) درید نے لوگوں سے کہا : یہ بھیڑوں کا چرواہا ہے ‘ اس کا جنگ سے کیا تعلق۔ پھر تعجب کے طور پر ہاتھ پر ہاتھ مار کر بولا : بھاگنے والے کو کوئی چیز لوٹا کر نہیں لاسکتی۔ اگر جنگ کا پلڑہ تمہارے حق میں ہونا ہے تو تم کو مردوں کی تلواریں اور نیزے ہی فائدہ پہنچا سکتے ہیں (بال بچے کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے) اور اگر جنگ تمہارے خلاف پڑی تو بیوی بچوں کی گرفتاری اور مویشیوں کی لوٹ تم کو رسوا کر دے گی ‘ لہٰذا ان تمام عورتوں ‘ بچوں اور جانوروں کو قوم کے بالائی مقامات اور محفوظ علاقوں میں پہنچا دو ‘ پھر گھوڑوں پر سوار اور پیدل سب مل کر لڑو ‘ اگر تم کو فتح حاصل ہوئی تو بیوی ‘ بچے اور جانور سب تم سے آکر مل جائیں گے اور اگر تم کو شکست ہوئی تو اہل و عیال اور مال کی تو حفاظت رہے گی۔ مالک نے کہا : میں ایسا نہیں کروں گا۔ تم بوڑھے ہوگئے ہو اور تمہاری عقل بھی بوڑھی ہوگئی ہے۔ درید کو یہ سن کر غصہ آگیا اور بولا : اے گروہ ہوازن ! کعب اور کلاب کہاں ہیں ؟ لوگوں نے جواب دیا : ان میں سے تو کوئی نہیں آیا۔ درید نے کہا : طاقت اور بہادری تو غائب ہوگئی۔ اگر یہ دن غلبہ پانے اور برتری حاصل کرنے کا دن ہوتا تو وہ لوگ غیر حاضر نہ ہوتے (اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فتح کا امکان نہیں ‘ اسی لئے بنی کعب و بنی کلاب نہیں آئے) اے گروہ ہوازن ! لوٹ چلو اور کعب و کلاب نے جیسا کیا ہے ‘ تم بھی ویسا ہی کرو۔ لوگوں نے واپس جانے سے انکار کردیا۔ درید نے کہا : اچھا ! تم میں سے کون کون آیا ہے ؟ قوم نے جواب دیا : عامر کے دونوں بیٹے عمرو اور عوف۔ درید نے کہا : یہ دونوں بنی عامر کے کمزور اشخاص ہیں ‘ فرار تو اختیار نہیں کریں گے لیکن ان کی موجودگی بھی فائدہ رساں نہیں ہے۔ مالک نے درید سے پوچھا : اس رائے کے علاوہ بھی کوئی رائے ہے جس پر چلنے کا میں قوم کو حکم دوں ؟ درید نے کہا : ہاں اپنی فوج کے کچھ آدمی کمین گاہ میں چھپا دو جو تمہاری مدد کیلئے تیار رہیں۔ اگر دشمن تم پر حملہ آور ہوں گے تو یہ تمہاری چھپی ہوئی کمک دشمنوں کے پیچھے سے ان پر حملہ کرے گی اور تم اپنے ساتھیوں کو لے کر سامنے سے مقابلہ کرو گے اور اگر تم حملہ کرو گے تو ان میں سے کوئی بچ کر نہ جائے گا۔ مالک نے ایسا ہی کیا۔ کچھ لوگوں کو پہاڑی گھاٹیوں اور وادی کے غاروں میں چھپا دیا اور مسلمانوں پر حملہ کیا جس سے رسول اللہ ﷺ کے اکثر ساتھی بھاگ پڑے۔ رسول اللہ ﷺ کو جب ہوازن کے ارادے کی اطلاع ملی تو آپ نے ان سے لڑنے کا ارادہ کرلیا اور حضرت عتاب بن اسید کو جن کی عمر بیس سال تھی ‘ اپنی جگہ مکہ میں حاکم بنایا اور حضرت معاذ بن جبل کو مسائل اسلام سکھانے کیلئے معلم مقرر کیا۔ بخاری نے حضرت ابوہریرہ کی وایت سے لکھا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے حنین کو جانے کا ارادہ کرلیا تو فرمایا : کل انشاء اللہ ہمارا پڑاؤ خیف بنی کنانہ پر ہوگا جہاں کافروں نے کفر پر قائم رہنے کی قسمیں کھائی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے صفوان بن امیہ سے کچھ زرہیں اور ہتھیار مستعا مانگے۔ صفوان نے کہا : محمد ! کیا زرہیں اور ہتھیار مجھ سے چھیننا چاہتے ہو یا بطور عاریت مانگتے ہو ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : محض عاریت کے طور پر اور وہ بھی ضمان ادا کرنے کے وعدہ پر (یعنی جو ہتھیار تلف ہوگا اس کا معاوضہ دیا جائے گا) صفوان نے سو زرہیں اور ان کے لائق ضروری اسلحہ دے دئیے۔ ابن اسحاق نے حضرت جابر کی روایت سے اور ابو داؤد و احمد نے امیہ بن صفوان کے حوالہ سے یونہی نقل کیا ہے۔ سہیلی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نوفل بن حارث بن عبدالمطلب سے تین ہزار برچھے بطور عاریت لئے تھے اور فرمایا تھا : میں گویا دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے یہ برچھے دشمنوں کی پیٹھ توڑ رہے ہیں۔ غرض رسول اللہ ﷺ ہفتہ کے دن 6؍ شوال 8 ھ ؁ کو بارہ ہزار مسلمانوں کو لے کر مکہ سے روانہ ہوئے ‘ دس ہزار مدینہ والے تھے اور دو ہزار مکہ والے۔ ابو الشیخ نے محمد بن عبیدا اللہ لیثی کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ کے دس ہزار آدمی تھے ‘ چار ہزار انصاری اور ایک ایک ہزار جہینہ ‘ مزینہ ‘ اسلم ‘ غفار اور اشجع کے اور ایک ہزار مہاجر اور دوسرے اشخاص۔ عروہ اور زہری کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مکہ میں تشریف لائے تھے تو آپ کے ساتھ بارہ ہزار اشخاص تھے ‘ پھر دو ہزار (مکہ کے) آزاد کردہ (یعنی مکہ کے باشندے جن کو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : جاؤ ‘ تم آزاد ہو) بڑھا لئے گئے ‘ اس طرح چودہ ہزار ہوگئے۔ ابن عقبہ اور محمد بن عمر کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب حنین کی طرف روانہ ہوئے تو مکہ کے تمام لوگ آپ کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے۔ کوئی پیدل تھا ‘ کوئی سوار یہاں تک کہ عورتیں بھی ساتھ گئیں باوجودیکہ اختلاف مذہب تھا مگر ان کا مقصد جنگ کا نظارہ کرنا اور مال غنیمت حاصل کرنا تھا۔ اگر رسول اللہ ﷺ کو شکست ہوجاتی تو ان لوگوں کیلئے باعث ناگواری نہ ہوتا۔ حضور ﷺ کے ساتھ ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ بھی تھے۔ صفوان مسلمان نہ تھے مگر ان کی بیوی مسلمان ہوگئی تھی اور رسول اللہ ﷺ نے دونوں کے درمیان تفریق نہیں کرائی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آپ کی دونوں بیبیاں حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ بھی تھیں جن کیلئے خیمہ لگا دیا گیا تھا۔ ابن اسحاق ‘ نسائی اور ترمذی نے بیان کیا ہے اور ترمذی نے اس کو صحیح بھی کہا ہے کہ حضرت حارث بن مالک نے فرمایا : ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب حنین کو روانہ ہوئے۔ دور جاہلیت سے نکلے ہوئے ہم کو زیادہ وقت نہیں گزرا تھا۔ قریش اور دوسرے کافروں کو ایک درخت سے عقیدت تھی۔ حاکم نے اکلیل میں لکھا ہے کہ وہ درخت بیری کا تھا اور سرسبز تھا ‘ اس درخت کو ذات انواط کہا جاتا تھا۔ ہر سال لوگ وہاں آکر جمع ہوتے اور درخت پر ہتھیار لٹکاتے ‘ قربانیاں کرتے اور ایک دن ٹھہرتے تھے۔ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس درخت کی طرف سے گذرے تو ہم نے پکار کر کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! جیسے ان کیلئے ذات انواط ہے ‘ ایسا ہی ہمارے لئے بھی کوئی ذات انواط مقرر کر دیجئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اللہ اکبر ‘ اللہ اکبر ‘ قسم ہے اس کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے ! تم نے تو وہی بات کہی جو موسیٰ کی قوم نے موسیٰ سے کہی تھی کہ ہمارا بھی کوئی ایسا ہی معبودمقرر کر دو جیسے ان (بت پرستوں) کے معبود ہیں۔ تم لوگ جاہل ہو ‘ یہ انہی کا طریقہ ہے اور تم لوگ اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقے پر ضرور چلو گے قدم بقدم۔ حضرت سہیل بن حنظلہ کی روایت ہے کہ ایک سوار نے آکر عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! میں نے فلاں فلاں پہاڑیوں پر چڑھ کر دیکھا تو نظر آیا کہ تمام ہوازن مع عورتوں اور اونٹوں اور بکریوں کے ایک جگہ اکٹھے ہوگئے ہیں۔ یہ خبر سن کر رسول اللہ ﷺ مسکرائے اور فرمایا : انشاء اللہ تعالیٰ یہ مسلمانوں کا مال غنیمت ہوگا۔ پھر فرمایا : آج رات ہمارا چوکیدارا کون کرے گا ؟ حضرت انس بن مالک ابی مرثد نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! میں نگرانی کروں گا۔ فرمایا : تو سوار ہو کر اس گھاٹی کے سامنے سے جاؤ اور اوپر پہنچ جاؤ (وہاں سے نگرانی کرو) اور جو لوگ تمہارے سامنے ہیں ‘ ان سے غافل نہ رہنا۔ جب رسول اللہ ﷺ فجر کی نماز پڑھ چکے تو حضرت انس آگئے اور عرض کیا : میں رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مطابق گیا تھا اور گھاٹی کے اوپر (رات کو) رہا تھا۔ میں نے دونوں گھاٹیوں کی طرف نظر دوڑائی مگر کوئی شخص وہاں دکھائی نہیں دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنت تمہارے لئے واجب کردی گئی۔ اس کے بعد اگر تم کوئی عمل بھی نہیں کرو گے تب بھی تمہارے لئے کوئی حرج نہیں ہوگا (یعنی اس نیکی نے تم کو جنت کا مستحق بنا دیا اور آئندہ نیکیوں سے بےنیاز کردیا) رواہ ابو داؤد و النسائی۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبد اللہ بن حدرد کو ہوازن کے حالات معلوم کرنے کیلئے بھیجا۔ حضرت عبد اللہ بن حدرد جا کر ان کے اندر گھس گئے اور ایک دو روز (حالات کی جستجو میں) وہیں رہے۔ وہاں انہوں نے مالک کو اپنے ساتھیوں سے یہ الفاظ کہتے سنا کہ اس بار سے پہلے محمد کو کسی (لڑنے والی) قوم سے لڑنے کا واسطہ نہیں پڑا ‘ ناتجربہ کار لوگوں سے ان کا مقابلہ ہوتا رہا جو لڑائی سے واقف ہی نہیں تھے ‘ اسلئے ان پر غالب آتے رہے۔ صبح کو تم لوگ اپنے جانوروں ‘ عورتوں اور بچوں کو اپنے پیچھے قطار در قطار جمع کردینا ‘ پھر اپنی طرف سے حملہ کا آغاز کرنا اور تلواروں کی نیامیں توڑ ڈالنا ‘ بیس ہزار برہنہ تلواریں لے کر ایک دم ‘ ایک ساتھ ایک شخص کی طرح حملہ کردینا۔ خوب سمجھ لو کہ جو پہل کرے گا ‘ غلبہ اسی کو حاصل ہوگا۔ ابن اسحاق نے حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضرت عمرو بن شعیب اور حضرت عبد اللہ بن ابی بکر بن عمرو بن حرم کی روایت سے لکھا ہے اور یہی محمد بن عمر نے حضرت ابو بردہ کی روایت سے بیان کیا ہے۔ راوی کا بیان ہے کہ ہم اوطاس میں ایک بڑے درخت کے نیچے اترے ‘ رسول اللہ ﷺ بھی اسی درخت کے نیچے فروکش ہوئے۔ وہاں ہم نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ بیٹھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرا آدمی بھی آپ کے پاس بیٹھا ہوا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : میں سو رہا تھا کہ یہ شخص آگیا اور میری ہی تلوار سونت کر میرے سرہانے کھڑا ہوگیا۔ میں بیدار ہوگیا۔ اس نے مجھ سے کہا : محمد ! اب تم کو مجھ سے کون بچائے گا ؟ میں نے کہا : اللہ۔ یہ سن کر میں نے اپنی تلوار نیام سے سونت لی اور عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں اللہ کے دشمن کی گردن مار دوں۔ وا اللہ ! یہ دشمن کے جاسوسوں میں سے ہے۔ فرمایا : ابو بردہ ! خاموش رہو۔ حضور ﷺ نے اس شخص سے کچھ نہیں فرمایا ‘ نہ اس کو کوئی سزا دی اور مجھ سے فرمایا : ابو بردہ ! اللہ میری حفاظت کرنے والا اور بچانے والا ہے ( اس وقت تک وہ میری حفاظت رکھے گا) کہ اس کا دین تمام مذاہب پر غالب ہوجائے۔ ابو نعیم اور بیہقی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ 10؍ شوال منگل کی شام کو حنین پہنچے۔ مالک بن عوف نے ہوازن کی طرف سے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کے احوال کی جستجو کیلئے تین آدمی بھیجے اور ان کو حکم دیا کہ مسلمانوں کے لشکر کے اندر پھیل جائیں (اور ہر ایک دشمن کے احوال کی جستجو کرے) جب یہ جاسوس مسلمانوں کے لشکر سے واپس آئے تو ہر ایک کا جوڑ جوڑ (بند بند) الگ الگ ہو رہا تھا (یعنی سب بےسکت ‘ خوف زدہ ہو رہے تھے) مالک نے پوچھا : ارے ! تمہاری یہ کیا حالت ہے ؟ جاسوس بولے : ہم کو کچھ گورے گورے آدمی ابلق گھوڑوں پر سوار دکھائی دئیے ‘ ان کو دیکھتے ہی ہم بےسکت ہوگئے اور وہ حالت ہوگئی جو تم دیکھ رہے ہو۔ خدا کی قسم ! ہماری جنگ زمین کے باشندوں سے نہیں ہوگی ‘ آسمان والوں سے ہم کو لڑنا ہوگا۔ مالک نے کہا : تف ہے تم تمام اہل لشکر سے زیادہ بزدل ہو۔ مالک نے ان لوگوں کو بند کردیا ‘ اس کو اندیشہ ہوا کہ ان کا یہ خوف کہیں لشکر میں نہ پھیل جائے۔ پھر لوگوں سے کہا : مجھے ایک جیالا آدمی بتاؤ (جو بیباکی کے ساتھ صحیح اطلاعات فراہم کرے) سب نے ایک شخص کا انتخاب کردیا۔ وہ شخص (جاسوسی کرنے کیلئے گیا) جب واپس آیا تو اس کی بھی وہی حالت تھی جو اس سے پہلے والے تینوں آدمیوں کی تھی اور اس نے بھی وہی بات کہی جو پہلے آدمیوں نے کہی تھی۔ محمد بن عمر کا بیان ہے : دو تہائی رات گذرنے کے بعد مالک نے وادی حنین میں اپنے ساتھیوں کی ترتیب اور صف بندی کی۔ یہ وادی بڑی خوفناک تھی ‘ اس میں بکثرت گھاٹیاں اور تنگ راستے تھے۔ مالک نے اپنے آدمیوں کو ان گھاٹیوں اور تنگ راہوں میں پھیلا دیا اور ان کو حکم دے دیا کہ سب یکدم حملہ کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنے ساتھیوں کو تیار کیا اور صبح کو ان کی صف بندی کی جھنڈے اور پھریرے قائم کئے اور بنفس نفیس دو زرہیں ‘ خود اور بکتر سے آراستہ ہوئے اور لشکر کی صفوں کے سامنے جا کر معائنہ کیا اور گھوم پھر کر بعض کو بعض کے آگے پیچھے کیا ‘ پھر سب کو جنگ پر آمادہ کیا اور فتح کی خوشخبری دی بشرطیکہ لوگ سچے دل سے ثابت قدمی کے ساتھ جمے رہیں۔ حضرت خالد بن ولید کو بنی سلیم کی قیادت سپرد کی ‘ حضرت خالد کو اور اہل مکہ کو آگے بڑھایا۔ لشکر کے تین حصے کئے : میمنہ ‘ میسرہ اور قلب (دایاں بازو ‘ بایاں بازو اور وسط) قلب میں خود رہے۔ ابو الشیخ ‘ حاکم ‘ بزار اور ابن مردویہ نے حضرت انس کی روایت سے بیان کیا ہے اور حاکم نے اس کو صحیح بھی قرار دیا ہے کہ جب حنین کے دن مکہ اور مدینہ والے جمع ہوگئے تو ان کو اپنی کثرت پر ایک طرح کا پندار ہوگیا اور لوگ کہنے لگے : بخدا ! آج ہم لڑیں گے۔ بزار کی روایت میں آیا ہے کہ ایک انصاری نوجوان نے کہا تھا : آج تعداد کی کمی کی وجہ سے ہم مغلوب نہ ہوں گے اور جونہی مقابلہ ہوگا ‘ دشمن شکست کھا کر پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ یونس بن بکر کی روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ان لوگوں کا یہ قول اور کثرت تعداد پر غرور ناپسند ہوا۔ ابن المنذر نے حسن کا بھی یہی قول نقل کیا ہے : اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ سے یہی مراد ہے (یعنی مکہ اور مدینہ والوں کا مل کر اپنی کثرت پر اترانا اور خوش ہونا) ۔ فلم تغن عنکم شیئا وضاقت علیکم الارض بما رحبت ثم ولیتم مدبرین۔ شیءًا یعنی تمہاری کثرت نے تم کو کچھ فائدہ نہیں پہنچایا ‘ یا تمہاری کثرت دشمن کے معاملہ میں کام نہیں آئی۔ بما رحبت اس میں ما مصدریہ اور باء بمعنی مَعَہے ‘ یعنی باوجود فراخ ہونے کے ‘ یا بائمصاحبت کا مفہوم ظاہر کر رہی ہے ‘ یعنی فراخ ہونے کے ساتھ بھی زمین میں تمہارے لئے اطمینان سے ٹھہرنے کی جگہ نہ تھی ‘ تم پر اتنا خوف چھایا کہ امن وقرار کی کوئی جگہ نظر نہ آئی۔ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ پھر تم نے دشمن کو پیٹھ دی۔ یہ خطاب ان مسلمانوں سے ہے جو تتربتر ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ مُدْبِرِیْنَ یعنی شکست کھا کر۔ ادبار ‘ اقبال کی ضد ہے ‘ یعنی پیچھے کو جانا۔ ابن اسحاق ‘ امام احمد اور ابن حبان نے حضرت جابر کی روایت سے اور ابو یعلی (محمد بن عمر) نے حضرت انس کی روایت سے بیان کیا ہے ‘ حضرت جابر نے فرمایا : جب وادی حنین ہمارے سامنے آئی تو ہم خوفناک وادی سے نشیب کی طرف گئے۔ وادی میں مختلف راستے ‘ تنگ مقامات اور گھاٹیاں تھیں۔ دشمن کے آدمی ہم سے پہلے وادی میں گھاٹیوں ‘ مخفی مقامات اور تنگ جگہوں میں چھپ گئے تھے اور حملہ کرنے کیلئے تیار ہوگئے تھے۔ ہم نیچے کو اتر ہی رہے تھے اور کوئی شبہ بھی نہ تھا کہ یکدم فوجی دستوں نے ایک آدمی کی طرح یکدم ہم پر حملہ کردیا۔ یہ تیرانداز تھے۔ حضرت انس نے فرمایا : ہوازن کی طرف سے جو چیز ہمارے سامنے آئی ‘ ایسی تو خدا کی قسم ! میں نے اس زمانہ میں کبھی دیکھی ہی نہ تھی۔ دشمن کی کثرت تھی اور وہ لوگ عورتوں ‘ بچوں اور جانوروں کو بھی لے کر آئے تھے۔ انہوں نے صف بندی اس طرح کی تھی کہ عورتوں کو اونٹوں پر سوار کر کے مردوں کی قطاروں کے پیچھے کردیا تھا پھر اونٹوں ‘ گایوں اور بکریوں کو ان کے پیچھے جمع کردیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح وہ نہیں بھاگیں گے۔ دور سے کچھ کالی کالی شباہت نظر آئی ‘ ہم سمجھے وہ آدمی ہیں۔ جب ہم وادی سے نشیب میں اترے تو صبح تڑکے کا وقت تھا۔ ہماری غفلت کی حالت میں کچھ دستے وادی کے تنگ راستوں اور گھاٹیوں سے نکل کر ایک شخص کی طرح یکدم ہم پر حملہ آور ہوگئے جس کی وجہ سے بنی سلیم کے اگلے سوار تتر بتر ہو کر بھاگ پڑے اور ان کے پیچھے اہل مکہ بھی چلے اور ان کے پیچھے دوسرے لوگ شکست کھا کر بھاگ کھڑے ہوئے ‘ کسی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا اور غبار اتنا اٹھا کہ ہم میں سے کسی کو اپنا ہاتھ بھی نہیں سوجھتا تھا۔ حضرت جابر نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ (قلب سے) دائیں جانب سمٹ گئے ‘ پھر فرمایا : لوگو ! میری طرف آؤ۔ میں اللہ کا رسول ہوں ‘ میں محمد بن عبد اللہ ہوں۔ بخاری ‘ ابن ابی شیبہ ‘ ابن مردویہ اور بیہقی نے بروایت ابن اسحاق بیان کیا ہے کہ ایک شخص نے حضرت براء بن عازب سے کہا : ابو عمارہ ! کیا آپ حنین کی لڑائی میں بھاگ گئے تھے ؟ حضرت براء نے فرمایا : نہیں ‘ خدا کی قسم ! رسول اللہ ﷺ نے تو پشت نہیں پھیری لیکن جوان صحابہ نہتے نکلے تھے ‘ ان کے پاس زیادہ ہتھیار نہیں تھے اور مقابلہ ہوا تیر انداز قوم سے جن کا کوئی تیر (زمین پر) نہیں گرتا تھا۔ جب ہمارا ان سے مقابلہ ہوا اور ہم نے ان پر حملہ کیا تو وہ بھاگ نکلے۔ لوگ مال غنیمت کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اتنے میں وہ لوگ تیروں کے ساتھ سامنے آگئے۔ تیر کیا تھے ‘ ٹڈی دل تھے ‘ کوئی تیر خطا نہیں کرتا تھا۔ اسی حالت میں وہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے آگئے۔ حضور ﷺ سفید خچر پر سوار تھے ‘ ابو سفیان خچر کی لگام آگے سے پکڑے ہوئے تھے۔ آپ فوراً اتر پڑے اور اللہ سے دعاء کی اور نصرت الٰہی کے طلبگار ہوئے اور فرمایا : کوئی جھوٹا نہیں میں اللہ کا سچا نبی ہوں ‘ میں ابن عبدالمطلب ہوں (یعنی عبد اللہ بن عبدالمطلب کا بیٹا ہوں) ابن اسحاق کی دوسری روایت میں آیا ہے کہ حضرت براء نے فرمایا : جب گھمسان کا رن پڑتا تھا تو ہم حضور ﷺ کے ذریعہ سے اپنا بچاؤ کرتے تھے (یعنی رسول اللہ ﷺ کے پیچھے آجاتے تھے) ہم میں بڑا بہادر آدمی وہ ہوتا تھا جو رسول اللہ ﷺ کے برابر کھڑا ہوتا (یعنی رسول اللہ ﷺ جس طرح آگے ہوتے ‘ اسی طرح وہ بھی حضور ﷺ کے برابر کھڑا ہوتا اور آگے کی صف میں بغیر اڑ لئے کھڑا رہتا) ۔ ابن اسحاق کا بیان ہے : جب مسلمان تتر بتر ہوگئے تو مسلمانوں میں سے جن لوگوں کے دلوں میں اسلام سے بغض تھا (اور بظاہر وہ مسلمان ہوگئے تھے یا یونہی ساتھ آگئے تھے) چہ میگوئیاں کرنے لگے۔ ابو سفیان کا اسلام بھی اس وقت تک یقینی نہ تھا ‘ مشکوک تھا ‘ اسلئے اس نے کہا : اب یہ شکست خوردہ وہ لوگ سمندر سے ورے نہیں رکیں گے۔ جبلہ بن حنبل اور بقول ابن ہشام ‘ کلاہ بن حنبل جو صفوان بن امیہ کا اخیافی بھائی تھا ‘ کہا : آج جادو بےحقیقت ہوگیا۔ یہ صفوان اس وقت تک اگرچہ مشرک تھا اور اس میعاد کے اندر تھا جو رسول اللہ ﷺ نے (غور کرنے کیلئے) اس کو دے دی تھی لیکن جبلہ کے جواب میں کہنے لگا : خاموش رہو ‘ خدا کی قسم ! قریش کے کسی آدمی کے ہاتھ سے اگر میرے تیر لگ جائے تو اس سے بہتر ہے کہ ہوازن کے کسی آدمی کے ہاتھ سے لگے۔ ابن سعد و ابن عساکر نے عبدالمالک بن عبیدا اللہ کی روایت سے طبرانی ‘ بیہقی ‘ ابن عساکر اور ابو نعیم نے عکرمہ کی روایت سے بیان کیا کہ شیبہ بن عثمان نے کہا کہ فتح کے سال جب رسول اللہ ﷺ زبردستی مکہ میں داخل ہو گے اور مکہ کو فتح کر کے حنین کے جہاد کو گئے تو میں نے سوچا کہ مجھے بھی قریش کے ساتھ ہوازن کی طرف چل دینا چاہئے تاکہ ہوازن سے جب مسلمانوں کی (گھمسان کی جنگ ہو اور) گتھم گتھا ہو تو محمد ﷺ کی طرف سے غفلت کا موقع پا کر میں ان پر حملہ کر دوں۔ مجھے اپنے باپ کی جس کو حمزہ نے قتل کیا تھا ‘ یاد آئی اور میں نے کہا : آج میں محمد ﷺ سے اپنا اور تمام قریش کا انتقام لے لوں گا اور اگر سارا عرب و عجم بھی محمد ﷺ کے پیچھے ہوجائے تب بھی میں ان کا اتباع نہیں کروں گا۔ چناچہ روانگی کے وقت سے میں تاک میں لگا رہا اور برابر میرا حوصلہ بڑھتا ہی جاتا تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ کے ساتھی بھاگ کھڑے ہوئے تو میں (حملہ کا موقع تلاش کرنے کیلئے رسول اللہ ﷺ کی دائیں طرف گیا۔ میں نے دیکھا کہ ادھر حضرت عباس چمکیلی زرہ پہنے کھڑے ہیں۔ میں نے خیال کیا کہ یہ تو محمد ﷺ کے چچا ہیں ‘ یہ ضرور محمد ﷺ کی مدد کریں گے۔ پھر میں بائیں طرف سے گیا ‘ ادھر ابو سفیان بن حارث موجود تھے۔ میں نے کہا : یہ چچا کے بیٹے ہیں ‘ یہ بھی ان کو ہرگز بےمدد نہیں چھوڑیں گے۔ پھر میں پیچھے سے گیا اور تلوار سے حملہ کرنے ہی والا تھا ‘ کوئی رکاوٹ نہیں رہی تھی کہ میں نے دیکھا کہ میرے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان بجلی کی طرح آگ کے شعلے چمک رہے ہیں ‘ مجھے ڈر لگا کہ کہیں مجھ پر نہ آپڑیں اور اپنی نظر جاتے رہنے کے خوف سے میں نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا اور پچھلے قدم لوٹ پڑا اور سمجھ گیا کہ (ا اللہ کی طرف سے) ان کی حفاظت کی جا رہی ہے۔ آپ نے میری طرف رخ پھیرا اور فرمایا : شیبہ ! میرے قریب آجاؤ۔ میں قریب پہنچ گیا ‘ آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر رکھ کر کہا : اے اللہ ! اس سے شیطان کو دور کر دے۔ میں نے فوراً اپنا سر اوپر اٹھایا تو آپ کی صورت مجھے اپنے کانوں ‘ آنکھوں اور دل سے بھی زیادہ پیاری دکھائی دینے لگی۔ پھر فرمایا شیبہ ! کافروں سے لڑو۔ میں فوراً آپ کے آگے بڑھ گیا اور خدا کی قسم ! میری یہ خواہش ہوگئی کہ آپ کو ہر دکھ سے بچانے کیلئے اپنی جان قربان کر دوں۔ جب ہوازن کو شکست ہوگئی اور رسول اللہ ﷺ اپنے پڑاؤ پر واپس تشریف لے آئے تو فرمایا : شکر ہے اس اللہ کا جس نے تم کو خیر پہچانی چاہی (یعنی تم کو پختہ ایمان عطا کردیا) پھر آپ نے وہ بات بیان فرما دی جس کا میں نے ارادہ کیا تھا۔ ﷺ محمد بن عمر کی روایت ہے کہ حضرت نضر بن حارث نے فرمایا : اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہم کو عزت اسلام دے کر سرفراز فرمایا اور محمد ﷺ کو بھیج کر ہم پر احسان کیا اور ہم اسی (شرک) پر نہیں مرے جس پر ہمارے باپ دادا مرگئے۔ راوی نے یہ طویل حدیث ذکر کی جس کے آخر میں ہے کہ حضرت نضر نے فرمایا : میں قریش کے کچھ اشخاص کے ساتھ جو اس وقت تک اپنے مذہب پر قائم تھے ‘ نکلا۔ ان اشخاص میں ابو سفیان بن حرب ‘ سفیان بن امیہ اور سہیل بن عمرو بھی تھے۔ ہمارا ارادہ یہ تھا کہ اگر محمد ﷺ کو شکست ہوئی تو ان کو لوٹنے والوں میں ہم بھی شامل ہوجائیں گے۔ ہم مشرکوں کے (دائرہ کے اندر تھے ‘ ان کے) بہی خواہ تھے۔ جب دونوں گروہوں کا آمناسامنا ہوا تو ہوازن نے یکبارگی حملہ کردیا۔ ہمارا خیال ہوگیا کہ مسلمان اس حملہ کو نہ سہہ سکیں گے۔ ہم مسلمانوں کی فوج میں تھے اور میرا ارادہ محمد ﷺ کے متعلق وہی تھا جس کا میں قصد کرچکا تھا۔ میں ارادہ کو عملی جامہ پہنانے ہی والا تھا کہ میں نے دیکھا کہ محمد ﷺ سفید خچر پر سوار ‘ مشرکوں کے سامنے کھڑے ہیں اور گورے گورے چہروں والے لوگوں نے ان کو اپنے جھرمٹ میں لے لیا ہے۔ میں اپنے ارادہ کے ساتھ محمد ﷺ کی طرف بڑھا تو ان لوگوں نے چیخ کر کہا : ادھر ہی رہنا ‘ ادھر نہ بڑھنا۔ چیخ سن کر میرا دل لرز گیا اور اعضاء میں کپکپی پیدا ہوگئی۔ میں نے کہا : یہ بات تو بدر کے دن کی طرح ہوئی ‘ بیشک یہ شخص حق پر ہے اور اس کی (غیب سے) حفاظت کی جاتی ہے۔ اللہ نے میرے دل میں اسلام ڈال دیا اور میرے سابق ارادہ کو بدل دیا۔ الحدیث بطولہ محمد بن عمر نے حضرت ابو قتادہ کی روایت سے بیان کیا کہ تیزی کے ساتھ بھاگنے والے لوگوں نے 24 گھنٹے مسلسل چل کر مکہ پہنچ کر اہل مکہ کو رسول اللہ ﷺ کے شکست کھا جانے کی اطلاع دے دی۔ حضرت عتاب بن اسید اس وقت امیر مکہ تھے اور ان کے ساتھ حضرت معاذ بن جبل بھی تھے ‘ یہ خبر سن کر ان لوگوں کو سخت غم ہوگیا ‘ لیکن اہل مکہ میں سے کچھ لوگوں کو اس خبر سے خوشی ہوئی اور انہوں نے مسرت کا اظہار کیا۔ ایک شخص بولا : اب عرب باپ دادا کے مذہب کی طرف لوٹ آئیں گے جبکہ محمد ﷺ قتل ہوچکے اور ان کے ساتھی پراگندہ ہوگئے۔ حضرت عتاب نے کہا : اگر محمد ﷺ شہید ہوگئے تو ہوگئے ‘ اللہ کا دین تو قائم ہے۔ محمد ﷺ جس کی عبادت کرتے تھے ‘ وہ زندہ ہے ‘ کبھی نہیں مرے گا۔ دن یونہی گذرا ‘ جب شام ہوئی تو اطلاع آئی کہ رسول اللہ ﷺ نے ہوازن کو شکست دے دی۔ اس خبر کو سن کر حضرت عتاب اور حضرت معاذ خوش ہوگئے اور جو لوگ پہلی خبر سے خوش ہوئے تھے ‘ ان کو اللہ نے ذلیل کردیا۔ بھاگنے والے (مسلمان) پھر (سمٹ کر) رسول اللہ ﷺ کی طرف لوٹ پڑے اور اوطاس میں پہنچ کر خدمت گرامی میں حاضر ہوگئے اور یہاں سے حضور ﷺ نے طائف کی طرف کوچ کیا۔ فائدہ : حضرت انس کا بیان ہے کہ (میدان میں) رسول اللہ ﷺ تنہا رہ گئے تھے۔ لیکن مسلم ‘ ابن اسحاق اور عبدالرزاق کا بیان ہے کہ حضرت عباس نے فرمایا : میں حنین کے دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا۔ میں اور ابو سفیان بن حارث آپ سے چمٹے رہے ‘ ہم دونوں نے ساتھ نہیں چھوڑا۔ رسول اللہ ﷺ سفید خچر پر سوار تھے۔ مسلمانوں اور کافروں کا جب مقابلہ ہوا تو مسلمان پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ میں رسول اللہ ﷺ کے خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھا۔ آپ کافروں کی طرف بڑھانے کیلئے خچر کو ایڑھ مار رہے تھے اور میں (خطرہ کو محسوس کر کے) خچر کو روک رہا تھا کہ آپ تیزی کے ساتھ کفار پر نہ جا پڑیں مگر آپ کو اس کی پرواہ نہیں تھی۔ اس وقت ابو سفیان بن حارث رسول اللہ ﷺ کی رکاب تھامے ہوئے تھے۔ دوسری حدیثوں میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (میدان میں) ایک جماعت رہ گئی تھی (سب ہی نہیں بھاگ پڑے تھے) محمد بن یوسف صالحی نے مختلف روایات کا تعارض دور کرتے ہوئے بیان کیا کہ آگے بڑھ کر دشمن سے لڑنے والے تو تنہا رسول اللہ ﷺ ہی باقی رہے ‘ لیکن کچھ لوگ آپ کے پیچھے بھی موجود رہے تھے اور ابو سفیان بن حارث اور حضرت عباس خچر کو روکنے کی خدمت انجام دے رہے تھے ‘ گویا موجود تو دوسرے لوگ بھی تھے مگر دشمن سے لڑنے والے اور لڑائی میں مشغول صرف رسول اللہ ﷺ تھے۔ کتنے لوگ اپنی جگہ ثابت قدم رہے تھے ‘ اس میں روایات کا اختلاف ہے۔ بقول کلبی ‘ رسول اللہ ﷺ کے گرداگرد تین سو مسلمان رہ گئے تھے ‘ باقی بھاگ چکے تھے۔ بیہقی نے حضرت حارثہ بن نعمان کا بیان نقل کیا ہے کہ جب لوگ پیٹھ دے کر بھاگ گئے تو میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہ جانے والوں کا اندازہ کیا ‘ میرے خیال میں وہ سو تھے۔ احمد ‘ طبرانی اور حاکم و ابونعیم نے معتبر سند سے حضرت ابن مسعود کا قول نقل کیا ہے کہ حنین کے دن میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا ‘ لوگ پیٹھ دے کر بھاگ گئے۔ مہاجرین و انصار میں سے صرف اسّی آدمی باقی رہ گئے۔ ہم لوگ بھی تقریباً اسّی قدم ایڑیاں موڑ کر (پیچھے) ہٹ گئے تھے مگر ہم نے کافروں کو پیٹھ نہیں دی تھی۔ حضرت انس کا بیان ہے کہ حضرت ابوبکر ‘ حضرت عمر ‘ حضرت عثمان اور حضرت علی ‘ ان میں سے ہر ایک نے دس سے زیادہ تلوار کے زخم کھائے تھے ‘ یا پہنچائے تھے۔ ابن مردویہ نے حضرت ابوعمرو کا قول نقل کا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سو آدمی (بھی) باقی نہیں رہے تھے۔ سو کی نفی اور اسّی کے اثبات میں کوئی تعارض نہیں (سو نہ ہوں گے ‘ سو سے کم ہوں گے) محمد بن عمر کی روایت ہے کہ حنین کے دن جب لوگ رسول اللہ ﷺ کا ساتھ چھوڑ کر پھٹ گئے تو آپ نے حضرت حارثہ بن نعمان سے فرمایا : حارثہ ! کتنے لوگ اپنی جگہ قائم رہے ؟ حضرت حارثہ کا بیان ہے کہ میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھ کر عرض کیا : سو ہوں گے۔ مگر مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ یہ لوگ گنتی میں سو ہی تھے ‘ یہ تو اس وقت معلوم ہوا جب ایک روز مسجد کے دروازہ کے پاس رسول اللہ ﷺ کو حضرت جبرئیل سے چپکے چپکے باتیں کرتے میں نے سنا اور حضرت جبرئیل نے پوچھا : محمد ﷺ ! یہ کون ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : یہ حارثہ بن نعمان ہے۔ حضرت جبرئیل نے کہا : یہ وہی ہے جو حنین کے دن سو ثابت قدم رہنے والوں میں شامل تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حارثہ کو اس گفتگو کی اطلاع دی۔ حضرت حارثہ نے عرض کیا : میں تو یہ سمجھا تھا کہ دحیہ کلبی آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ نووی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ثابت قدم رہنے والے صرف بارہ آدمی تھے۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب نے ذیل کے اشعار میں ظاہر کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ثابت قدم رہنے والے دس اشخاص تھے : نَصَرْنَا رَسُوْلَ اللّٰہ فی الْحَرْب تُسعَۃٌ وَفَرَّ رَمَنْ قَدْ فَرَّعَنْہٗ فَاقَشَعُوْا وَعَاشِرُنَا لَاتَی الْحِمَامَ بِنَفسِہٖ لِمَا مَسّہٗ فی اللّٰہِ لاَ یَتَوَجَعَ ہم نو آدمیوں نے رسول اللہ ﷺ کی مدد کی اور آپ کو چھوڑ کر جو بھاگ پڑے ‘ بھاگ گئے اور پھٹ گئے اور ہمارے دسویں آدمی نے موت کا مقابلہ اپنی جان سے کیا اور اللہ کی راہ میں اس کو جو دکھ پہنچا ‘ اس پر اس نے درد کا اظہار نہیں کیا۔ صالحی نے کہا : یہ زیادہ صحیح ہے۔ اس سے زیادہ تعداد کا جس نے ذکر کیا ہے ‘ شاید نہ بھاگنے والوں کی فہرست میں اس نے ان لوگوں کو بھی شمار کرلیا جو بھاگ کر فوراً ہی پلٹ آئے تھے۔ اس روز چار عورتیں بھی اپنی جگہ پر جمی رہی تھیں : اُم سلیم بنت ملحان ‘ اُم عمارہ ‘ اُم سلیط ‘ اُم حارث۔
Top