Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 41
اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اِنْفِرُوْا : تم نکلو خِفَافًا : ہلکا۔ ہلکے وَّثِقَالًا : اور (یا) بھاری وَّجَاهِدُوْا : اور جہاد کرو بِاَمْوَالِكُمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِكُمْ : اور اپنی جانوں فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ ذٰلِكُمْ : یہ تمہارے لیے خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
تم سبکبار ہو یا گراں بار (یعنی مال و اسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت، گھروں سے) نکل آؤ۔ اور خدا کے رستے میں مال اور جان سے لڑو۔ یہی تمہارے حق میں اچھا ہے بشرطیکہ سمجھو
انفروا خفافا وثقالا نکلو جہاد کو ہلکے اور بھاری۔ خفافًا اور ثقالاً کی تفسیر مختلف طور پر کی گئی ہے : (1) جوان ہو یا بوڑھے (حسن ‘ ضحاک ‘ مجاہد ‘ قتادہ ‘ عکرمہ) ۔ (2) چست ہو یا چست نہ ہو۔ (3) نادار تنگدست ہو یا مالدار فراخ دست) ۔ (4) ہتھیار کم ہوں یا زیادہ (حضرت ابن عباس) ۔ (5) سوار ہو یا پیدل (عطیہ عوفی) ۔ (6) جائیداد اور جاگیر والے نہ ہو یا جائیداد و جاگیر والے ہو جس کو چھوڑنا تم کو پسند نہ ہو (ابن زید) ۔ (7) کاموں میں مشغول ہو یا خالی ہو (حکیم بن عتبہ) ۔ (8) بیمار ہو یا تندرست (ہمدانی) ۔ (9) مجرد ہو یا بیوی بچوں والے۔ (10) تمہارے متعلقین اور نوکر چاکر نہ ہوں یا ہوں (یمانی) ۔ (11) مال سے ہلکے ہو یعنی محتاج ہو یا مال کا بوجھ رکھتے ہو یعنی غنی ہو (ابو صالح) ۔ بعض کے نزدیک مراد یہ ہے کہ دعوت جہاد سنتے ہی فوراً بلاتامل نکل کھڑے ہو یا تامل و غور اور تیاری کے بعد نکلو۔ زہری کی روایت ہے کہ حضرت سعید بن مسیب کی ایک آنکھ جاتی رہی تھی ‘ اسی حالت میں آپ جہا دکو نکلے۔ کسی نے کہا : آپ تو بیمار اور دکھی ہیں۔ فرمایا : اللہ نے خفیف (تندرست) اور ثقیل (بیمار) سب کو جہاد کی دعوت دی ہے۔ اگر مجھ سے لرائی نہ ہو سکے گی تو میں مسلمانوں کی جماعت میں اضافہ کا ہی سبب بن جاؤ گا اور سامان کی حفاظت کرتا رہوں گا۔ عطاء خراسانی نے حضرت ابن عباس کا قول بیان کیا ہے کہ اس آیت کے حکم کو اللہ نے آیت وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَافَّۃً سے منسوخ فرما دیا۔ سدی نے کہا : جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں کو بڑی دشواری کا سامنا ہوگیا۔ اس پر اللہ نے اس (عمومی) حکم کو لَیْسَ عَلَی الضُّعَفَآءِ وَلاَ عَلَی الْمَرْضٰی الخ سے منسوخ کردیا۔ میں کہتا ہوں : حضرت ابن عباس اور سدی کے اقوال میں منسوخ کردینے سے مراد ہے : خاص کردینا ‘ کیونکہ دونوں آیتوں کا نزول بغیر کسی فاصلہ اور اختلاف زمانہ کے غزوۂ تبوک کے سلسلہ میں ہوا تھا (اور ناسخ منسوخ ہونے کیلئے اختلاف زمانہ اور تقدم و تأخیر ضروری ہے) پس اس عمومی حکم سے تخصیص کی وجہ سے وہ لوگ نکل گئے جو نکلنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں ‘ کمزور اور بیمار ہوں ‘ یا خرچ نہ ہو ‘ یا سواری فراہم نہ کرسکتے ہوں اور کسی طرح ان میں سکت نہ ہو۔ حکم کے اندر وہی لوگ داخل رہے جو جہاد کو جانے کی طاقت رکھتے ہوں ‘ خواہ دشواری اور مشقت ہی اٹھانی پڑے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آیت لَیْسَ عَلَی الضُّعَفَآءِالخ کا نزول آیت مذکورہ کے ایک دو روز بعد ہوا ہو ‘ خواہ دونوں کا نزول جہاد تبوک کے سلسلہ میں ہوا ہو۔ اگر ایسا ہوا ہو تو نسخ ہوگا (نسخ کو تخصیص کہنے کی ضرورت نہ ہوگی) ۔ وجاھدوا باموالکم وانفسکم فی سبیل اللہ اور اللہ کی راہ میں مال و جان سے کوشش کرو۔ یعنی جس طرح ممکن ہو ‘ خواہ جان و مال دونوں سے یا صرف مال یا صرف جان سے۔ ذلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون۔ یہ تم سب کیلئے (دنیوی لذت اندوزیوں سے اور جہاد کو ترک کردینے سے) بہتر ہے۔ اگر تم خیر کو شر سے ممتازکر سکتے ہو تو جان لو گے کہ یہ کام تمہارے لئے بہتر (خیر) ہے ‘ یا یہ مطلب ہے کہ اگر تم واقف ہو کہ جہاد کو بہرصورت نکلنا تمہارے لئے بہتر ہے اور اللہ کی خبر سچی ہے تو جہاد کی طرف پیش قدمی کرو۔ محمد بن عمر کا بیان ہے کہ خیرات کرنے یعنی تبوک کے لشکر کو تیار کرنے (اور اس کیلئے چندہ دینے کی) رسول اللہ ﷺ نے ترغیب دی۔ سب سے پہلے حضرت ابوبکر اپنا مال یعنی چار ہزار درہم لے کر آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تم نے گھر والوں کیلئے بھی کچھ چھوڑ دیا ہے ؟ حضرت ابوبکر نے عرض کیا : میں نے ان کیلئے اللہ اور رسول اللہ ﷺ کو چھوڑا ہے۔ حضرت عمر اپنا آدھا مال لے کر آئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : کیا گھر والوں کیلئے بھی تم نے کچھ چھوڑا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : جی ہاں ! جتنا لایا ہوں ‘ اتنا ہی چھوڑ کر آیا ہوں۔ حضرت عباس نے حضرت طلحہ بن عبید اللہ اور حضرت سعد بن عبادہ کو سواریاں دیں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے دو سو اوقیہ (سونا) لا کر خدمت گرامی میں پیش کیا اور حضرت عاصم بن عدی نے نوے وسق چھوارے دئیے (ایک وسق ساٹھ صاع ‘ ایک صاع تقریباً چار سیر) حضرت عثمان بن عفان نے ایک تہائی لشکر تیار کیا ‘ یہاں تک کہ لوگ کہتے تھے کہ اس لشکر کی ہر ضرورت حضرت عثمان نے پوری کی۔ محمد بن یوسف صالحی نے کہا : تبوک کی فوج تیس ہزار سے زائد تھی ‘ پس حضرت عثمان نے دس ہزار کو پورا سامان دے کر تیار کیا۔ ابو عمر نے الدرر میں لکھا ہے اور اسی کے اتباع میں الاشارہ میں بھی ذکر کیا ہے کہ حضرت عثمان نے نو سو اونٹ اور ایک سو گھوڑے کل ساز و سامان سمیت سواری کیلئے دئیے تھے۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے : حضرت عثمان نے اس لشکر کی تیاری میں اتنا خرچ کیا کہ کسی اور نے اتنا خرچ نہیں کیا۔ ابن ہشام نے معتبر روایت سے بیان کیا ہے کہ جیس عسرت (تبوک کی فوج) کیلئے حضرت عثمان نے دس ہزار درہم خرچ کئے۔ محمد بن یوسف صالحی نے کہا : یعنی علاوہ سواریاں اور ان کا ساز و سامان دینے کے دس ہزار خرچ کئے۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے دعا کی : الٰہی ! تو عثمان سے راضی ہو ‘ میں اس سے راضی ہوں۔ امام احمد ‘ ترمذی اور بیہقی نے حضرت عبدالرحمن بن سمرہ کی روایت سے بیان کیا ہے اور ترمذی نے اس روایت کو حسن کہا ہے کہ حضرت عثمان نے ایک ہزار دینار لا کر رسول اللہ ﷺ کی گود میں ڈال دئیے۔ رسول اللہ ﷺ اشرفیوں کو دست مبارک سے الٹ پلٹ کرتے جاتے اور بار بار فرماتے جاتے تھے : آج کے بعد عثمان جو عمل بھی کرے ‘ اس کو ضرر نہیں پہنچے گا (یعنی کسی عمل کا گناہ نہ ہوگا یا کوئی عمل گناہ کے قابل ہی نہ ہوگا) ۔ ابن عقبہ کا بیان ہے کہ منافق تبوک کے جہاد پر نہیں گئے۔ ان کا خیال تھا کہ رسول اللہ ﷺ کبھی لوٹ کر نہ آسکیں گے (لیکن جب حضور ﷺ بخیریت واپس آگئے تو) انہوں نے عذر پیش کئے (یعنی جھوٹی معذرتیں کیں کہ ہم ان وجوہ کی بناء پر شریک نہ ہو سکے) ۔ محمد بن عمر کا بیان ہے کہ کچھ منافق بغیر کسی وجہ کے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس غرض سے حاضر ہوئے کہ تبوک کو نہ جانے کی اجازت حاصل کرلیں۔ حضور ﷺ نے ان کو اجازت دے دی۔ یہ لوگ اسّی سے کچھ زائد تھے۔ انہی کے متعلق اللہ نے آیت ذیل نازل فرمائی :
Top