Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 49
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّیْ وَ لَا تَفْتِنِّیْ١ؕ اَلَا فِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوْا١ؕ وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِیْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو۔ کوئی يَّقُوْلُ : کہتا ہے ائْذَنْ : اجازت دیں لِّيْ : مجھے وَلَا تَفْتِنِّىْ : اور نہ ڈالیں مجھے آزمائش میں اَلَا : یاد رکھو فِي : میں الْفِتْنَةِ : آزمائش سَقَطُوْا : وہ پڑچکے ہیں وَاِنَّ : اور بیشک جَهَنَّمَ : جہنم لَمُحِيْطَةٌ : گھیرے ہوئے بِالْكٰفِرِيْنَ : کافروں کو
اور ان میں کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ مجھے تو اجازت ہی دیجئے اور آفت میں نہ ڈالئے۔ دیکھو یہ آفت میں پڑگئے ہیں اور دوزخ سب کافروں کو گھیرے ہوئے ہے
ومنھم من یقول ائذن لی ولا تفتني اور ان (منافقوں) میں بغضا شخص وہ ہے جو کہتا ہے کہ مجھے (یہیں رہنے اور ساتھ نہ چلنے کی) اجازت دے دیجئے اور مجھے مصیبت میں نہ ڈالئے۔ اس قول کا قائل جد بن قیس منافق تھا۔ ابن المنذر ‘ طبرانی ‘ ابن مردویہ اور المعرفۃ میں ابو نعیم نے حضرت ابن عباس کی روایت سے اور ابن ابی حاتم و ابن مردویہ نے حضرت جابر بن عبد اللہ کے حوالہ سے اور محمد بن اسحاق و محمد بن عمرو بن عقبہ نے اپنے مشائخ کی سند سے بیان کیا کہ جد بن قیس اپنے ساتھیوں کو (جن کی تعداد دس سے کم تھی) لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مسجد میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ مجھ یہیں رہ جانے کی اجازت دے دیجئے۔ میری کچھ کھیتی باڑی کی زمین ہے (جس کی نگرانی ضروری ہے) میں اس کی وجہ سے معذور ہوں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : تیاری کرو ‘ تم فراخ دست ہو ‘ شاید (مال غنیمت میں) تم کو بنی الاصفر (اہل روم) کی کوئی عورت مل جائے۔ جد نے عرض کیا : مجھے تو اجازت دے ہی دیجئے اور مصیبت میں نہ ڈالئے۔ میری قوم والے واقف ہیں کہ کوئی بھی مجھ سے زیادہ عورتوں کا دلدادہ نہیں ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر میں رومی عورتوں کو دیکھ پاؤں گا تو اپنے کو روک نہ سکوں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف سے رخ موڑ لیا اور فرمایا : ہم نے تم کو اجازت دے دی۔ محمد بن عمر نے اتنا زائد بیان کیا ہے کہ جد کا بیٹا عبد اللہ (خالص مؤمن اور) بدری صحابی تھا اور حضرت معاذ بن جبل کا اخیافی بھائی بھی تھا۔ عبد اللہ نے اس واقعہ کے بعد اپنے باپ سے جا کر کہا : آپ نے رسول اللہ ﷺ کے فرمان کو کیوں رد کردیا ؟ وا اللہ ! بنی سلمہ میں آپ سے زیادہ مالدار تو کوئی بھی نہیں ہے۔ آپ نہ خود جا رہے ہیں نہ (اپنی طرف سے) کسی کو سواری دے رہے ہیں۔ جد نے کہا : بیٹے ! سخت گرمی (طوفانی) ہوا اور تنگ حالی کے زمانہ میں رومیوں کے مقابلہ پر میں کیسے جاسکتا ہوں۔ اس وقت تو میں اپنے گھر میں ہوں پھر بھی رومیوں کے خوف سے خالی نہیں ہوں ‘ ان سے لڑنے کیلئے کیسے جاسکتا ہوں۔ بیٹے ! خدا کی قسم ‘ میں زمانہ کے چکروں سے واقف ہوں (یعنی خوب سوجھ بوجھ اور تجربہ رکھتا ہوں ‘ زمانہ کا سرد گرم چکھے ہوئے ہوں) بیٹے نے کلام میں کچھ درشتی کی اور کہا : خدا کی قسم ! اور کوئی بات نہیں ہے ‘ یہ تو صرف نفاق ہے۔ خدا کی قسم ! رسول اللہ ﷺ پر کوئی آیت نازل ہوجائے گی اور آپ اس کو پڑھیں گے (اور تمہارے نفاق ظاہر ہوجائے گا) جد نے یہ کلام سن کر جھنڈا اٹھا کر بیٹے کے منہ پر مارا اور بیٹا چلا گیا ‘ باپ سے پھر بات نہ کی۔ اور اللہ نے یہ آیت نازل فرما دی۔ طبرانی ‘ ابن مردویہ اور ابو نعیم کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جد بن قیس سے فرمایا : رومیوں سے جہاد کرنے کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ؟ جد نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! میں عورتوں کا دلدادہ آدمی ہوں ‘ رومیوں کی عورتوں کو دیکھ کر میں فتنہ میں پڑجاؤں گا۔ مجھے تو آپ یہیں رک جانے کی اجازت دے دیجے اور مصیبت میں نہ ڈالئے۔ اس پر یہ آیت اتری۔ بغوی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (جد بن قیس سے) فرمایا : ابو وہب ! رومیوں سے جنگ کرنے کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ (شدید) تم کو باندی غلام قیدی ہاتھ لگ جائیں۔ جد نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! میری قوم والے جانتے ہیں کہ میں عورتوں کا شیفتہ ہوں ‘ مجھے اندیشہ ہے کہ رومیوں کی عورتوں کو دیکھ کر میں رک نہ سکوں گا۔ آپ مجھے یہیں رکنے کی اجازت دے دیجئے اور عورتوں کی مصیبت میں نہ ڈالئے۔ میں آپ لوگوں کی مالی مدد کر دوں گا۔ طبرانی نے دوسری سند سے حضرت ابن عباس کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جہاد کرو اور مال غنیمت میں رومی عورتوں کو حاصل کرو۔ بعض منافق کہنے لگے : یہ تم کو عورتوں کے لالچ میں پھانسنا چاہتے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ مذکورۂ بالا روایات کی روشنی میں لاَ تَفْتِنِّیکا مطلب یہ ہوگا کہ رومی عورتوں کے فتنہ میں مجھے نہ ڈالئے کہ میں ان کی محبت کی وجہ سے گناہ اور مصیبت میں پھنس جاؤں اور صبر نہ کرسکوں۔ بعض لوگوں کے نزدیک فتنہ سے مراد ہے : مال اور بیوی بچوں کی بربادی ‘ یعنی میرے بعد ان کا کوئی نگراں نہ رہے گا اور سب کی تباہی ہوجائے گی۔ بعض علماء نے آیت کا مطلب اس طرح بیان کیا ہے کہ آپ مجھے خود ساتھ نہ جانے کی اجازت دے دیجئے ‘ ایسا نہ ہو کہ آپ کے حکم کی خلاف ورزی کر کے میں گناہ میں پڑجاؤں اور آپ کی اجازت نہ ہونے کے باوجود بیٹھ رہوں۔ یعنی میں تو بہرطور نہیں جاؤں گا ‘ خواہ آپ اجازت قیام دیں یا نہ دیں۔ الا فی الفتنۃ سقطوا خوب سمجھ لو کہ یہ لوگ مصیبت میں تو (خود) پڑ ہی چکے۔ یعنی مصیبت اور خرابی تو وہ ہے جس میں یہ خود پڑے ہوئے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ جہاد کو نہ جانا اور نفاق کا ظاہر ہوجانا ہی ان کی خرابی ہے۔ وان جھنم لمحیطۃ بالکافرین۔ اور یقیناً جہنم ان کافروں کو محیط ہے۔ یعنی قیامت کے دن ان سب کو اپنے اندر سمیٹ لے گی ‘ یا اب گھیرے ہوئے ہے کیونکہ جہنم میں داخل ہونے کے اسباب ان کو گھیرے ہوئے ہیں (تو گویا جہنم گھیرے ہوئے ہے) ۔
Top