Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 55
فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ١ؕ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ تَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ
فَلَا تُعْجِبْكَ : سو تمہیں تعجب نہ ہو اَمْوَالُهُمْ : ان کے مال وَلَآ : اور نہ اَوْلَادُهُمْ : ان کی اولاد اِنَّمَا : یہی يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُعَذِّبَهُمْ : کہ عذاب دے انہیں بِهَا : اس سے فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَتَزْهَقَ : اور نکلیں اَنْفُسُهُمْ : ان کی جانیں وَهُمْ : اور وہ كٰفِرُوْنَ : کافر ہوں
تم ان کے مال اور اولاد سے تعجب نہ کرنا۔ خدا چاہتا ہے کہ ان چیزوں سے دنیا کی زندگی میں ان کو عذاب دے اور (جب) ان کی جان نکلے تو (اس وقت بھی) وہ کافر ہی ہوں
فلا تعجبک اموالھم ولا اولادھم انما یرید اللہ لیعذبھم بھا فی الحیوۃ الدنیا وتزھن انفسھم وھم کافرون۔ سو ان کے مال و اولاد آپ کو تعجب میں نہ ڈالیں۔ اللہ کو صرف یہ منظور ہے کہ ان (دنیوی) چیزوں کی وجہ سے دنیاوی زندگی میں بھی ان کو گرفتار عذاب رکھے اور ان کی جانیں بھی کفر کی ہی حالت میں نکل جائیں۔ اعْجَابْ کا معنی ہے : کسی پسندیدہ چیز پر خوش ہونا۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے جو دولت اور اولاد عطاء کی ہے ‘ وہ پسندیدگی کے قابل نہیں ‘ یہ تو محض ایک ڈھیل ہے جو حقیقت میں وبال ہے۔ مال و اولاد دے کر تو اللہ ان کو دنیوی زندگی میں ہی گرفتار عذاب رکھنا چاہتا ہے۔ دولت جمع کرنے اور اولاد کی دیکھ بھال کیلئے یہ طرح طرح کی فریب کاریاں کرتے ہیں ‘ دکھ اٹھاتے ہیں ‘ تکلیفیں برداشت کرتے ہیں ‘ سختیاں جھیلتے ہیں ‘ مصائب میں گرفتار ہوتے ہیں اور خرچ کرنا ان کے دلوں کو ناگوار ہوتا ہے ‘ اندرونی دکھ ہوتا ہے اور جس کے پاس نہیں ہے ‘ اس کو حسرت و افسوس ہوتا ہے (غرض مال و اولاد ہونے یا نہ ہونے ‘ دونوں صورتوں میں ان پر عذاب ہی عذاب ہے) ۔ مجاہد اور قتادہ نے کہا : آیت میں الفاظ کی کچھ تقدیم و تاخیر ہے۔ اصل ترتیب اس طرح تھی : دنیوی زندگی میں اللہ نے جو مال و اولاد عطا کی ہے ‘ آپ کو اس پر تعجب نہ ہونا چاہئے۔ اللہ کو یہ منظور ہے کہ مال کمانے ‘ جمع کرنے ‘ جوڑ جوڑ کر رکھنے اور ناجائز راستوں میں خرچ کرنے کی وجہ سے آخرت میں ان کو مبتلائے عذاب کرے۔ زھوقکا اصل لغوی معنی ہے : دشواری کے ساتھ نکلنا ‘ یعنی ان کی جانیں ٹوٹ ٹوٹ کر افسوس اور حسرت کے ساتھ نکلیں اور دنیا میں مبدأ اور معاد کی طرف سے غفلت کی حالت میں رہیں۔ یہی ان کی ڈھیل ہے (کہ یہ نہیں سمجھتے کہ آئندہ جب رسی کھینچی جائے گی تو پھڑپھڑاتے تڑپتے رہ جائیں گے اور کسی طرح رہائی ممکن نہ ہوگی) ۔ آیت میں (معتزلہ کے مسلک کے خلاف) اس امر کی دلیل ہے کہ بندہ کیلئے جو چیز زیادہ مناسب اور مفید ہو ‘ اسی کو عطا کرنا اللہ پر واجب نہیں ہے (بلکہ وہ ضرر رساں ‘ غیر اصلح چیز دے کر بندہ کو مبتلائے عذاب بھی کرسکتا ہے) کیونکہ اس آیت میں اللہ نے بتایا کہ کافروں کو مال و اولاد دے کر (ان کو نوازنا اور ان کو فائدہ پہنچانا مقصود نہیں ہے بلکہ) ان کو گرفتار عذاب کرنا اور کفر کی حالت میں ان کی جانیں نکالنا مقصود ہے۔
Top