Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 148
وَ لِكُلٍّ وِّجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّیْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ١ؐؕ اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یَاْتِ بِكُمُ اللّٰهُ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَلِكُلٍّ : اور ہر ایک کے لیے وِّجْهَةٌ : ایک سمت ھُوَ : وہ مُوَلِّيْهَا : اس طرف رخ کرتا ہے فَاسْتَبِقُوا : پس تم سبقت لے جاؤ الْخَيْرٰتِ : نیکیاں اَيْنَ مَا : جہاں کہیں تَكُوْنُوْا : تم ہوگے يَاْتِ بِكُمُ : لے آئے گا تمہیں اللّٰهُ : اللہ جَمِيْعًا : اکٹھا اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز قَدِيْر : قدرت رکھنے والا
اور ہر ایک (فرقے) کے لیے ایک سمت (مقرر) ہے۔ جدھر وہ (عبادت کے وقت) منہ کیا کرتے ہیں۔ تو تم نیکیوں میں سبقت حاصل کرو۔ تم جہاں رہو گے خدا تم سب کو جمع کرلے گا۔ بے شک خدا ہر چیز پر قادر ہے
وَلِكُلٍّ وِّجْهَةٌ ھُوَ مُوَلِّيْهَا ( اور ہر ایک کے لیے ایک سمت ہے جس طرف کو وہ منہ کرتا ہے) لِکُلِّ میں تنوین مضاف الیہ (امت) کے عوض میں ہے وجھۃ اس جانب کو کہتے ہیں جس طرف منہ کرتے ہیں یعنی ہر امت اور گروہ کا ایک قبلہ ہے اور ضمیر ھو کل کی طرف راجع ہے مُوَلِّیْھَا کا دوسرا مفعول وجہہ محذوف ہے یعنی جس کی طرف وہ اپنا رخ کرنے والا ہے چناچہ عرب ولیتہ و ولیت الیہ اس وقت بولتے ہیں جب کسی شے کی طرف توجہ کی جائے اور ولیت عنہ اس وقت بولتے ہیں جب اعراض کیا جائے ابن عامر نے مُوَ مُوَلَّاھَاپڑھا ہے اس تقدیر پر معنی یہ ہوں گے وہ پھیرا گیا ہے اس کی طرف حاصل یہ ہے کہ عادت اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے اسی طرح ہے کہ ہر ایک امت کا ایک قبلہ مقرر فرماتا ہے چناچہ موسیٰ ( علیہ السلام) کے لیے علیحدہ قبلہ بنایا اور محمد ﷺ کا علیحدہ اسی طرح ہر نبی کا قبلہ جدا مقرر فرمایا۔ غرض قبلہ کا مسئلہ عبادات سے ہے کہ جس میں رائے کو دخل نہیں اور نہ کسی خصوصیت مکانی پر اس کا مدار ہے اس لیے اس میں نزاع جائز نہیں۔ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ ( سو تم دوڑ و نیکیوں کی طرف) یعنی امتثال امر خداوندی میں پیش قدمی کرو جس وقت اللہ تعالیٰ بیت المقدس کے استقبال کا حکم فرمائے اس طرف توجہ کرو اور جس وقت کعبہ کی طرف توجہ کرنے کا حکم دے تو کعبہ کی طرف مائل ہوجاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ جو چاہے حکم کرے تم کو نزاع کرنا کسی طرح مناسب نہیں۔ اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا ( تم جہاں کہیں ہو گے) مطلب یہ ہے کہ تم خواہ ہماری مرضی کے موافق استقبال کرو یا نہ کرو۔ يَاْتِ بِكُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ( لائے گا اللہ تعالیٰ تم کو اکٹھا بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے) بہر حال حق تعالیٰ تمہاری سب کی ارواح قبض فرمائے گا اور پھر تمہیں بدلہ دینے کے لیے جمع کرے گا اور تمہارے اعمال کے موافق تمہیں پاداش دے گا تو کیا اچھی بات ہو کہ قبض روح کے وقت تم نماز میں ہو یا نماز سے فارغ ہوچکے ہو یہ عین سعادت و فوز ہے۔ ایک تفسیر وَ لکل وجھۃٌ..... کی یہ تھی جو ہم نے بیان کی اور ایک معنی اور ہوسکتے ہیں وہ یہ ہیں کہ ہر مسلمان کا ایک قبلہ ہے اگر جہت کعبہ کو جانتا ہے تو وہی قبلہ ہے اس کی طرف منہ کرے اور اگر معلوم نہیں ہے کہ قبلہ کس طرف ہے تو اس کا قبلہ وہی ہے جس طرف دل گواہی دے اور اگر آبادی کے باہر سواری پر نفل پڑھنا چاہتا ہے تو جدھر سواری کا رخ ہو وہی قبلہ ہے تو تم کو چاہئے کہ نماز کو اپنے وقت پر پڑھو۔ اگر سفر میں بالفرض قبلہ کا پتہ نہ چلے تو اس حیلہ سے نماز میں دیر نہ کرو جس طرف دل گواہی دے اسی طرف پڑھ لیا کرو۔ خواہ تم شرق میں ہو یا غرب میں جہاں کہیں ہو گے اللہ تعالیٰ تمہاری نماز قبیلہ ہی کی طرف کر دے گا اور اسے ایسا کرے گا کہ گویا کعبہ ہی کی طرف پڑھی کیونکہ اللہ تعالیٰ کو سب قدرت ہے۔
Top