Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 63
اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ مَنْ یُّحَادِدِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَاَنَّ لَهٗ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِیْهَا١ؕ ذٰلِكَ الْخِزْیُ الْعَظِیْمُ
اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا : کیا وہ نہیں جانتے اَنَّهٗ : کہ وہ جو مَنْ : جو يُّحَادِدِ : مقابلہ کرے گا اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول فَاَنَّ : تو بیشک لَهٗ : اس کے لیے نَارَ جَهَنَّمَ : دوزخ کی آگ خَالِدًا : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا : اس میں ذٰلِكَ : یہ الْخِزْيُ : رسوائی الْعَظِيْمُ : بڑی
کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ جو شخص خدا اور اس کے رسول سے مقابلہ کرتا ہے تو اس کے لیے جہنم کی آگ (تیار) ہے جس میں وہ ہمیشہ (جلتا) رہے گا۔ یہ بڑی رسوائی ہے
الم یعلموا انہ من یحادد اللہ ورسولہ فان لہ نار جھنم خالدًا فیھا کیا ان کو خبر نہیں کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرے گا (جیسا کہ یہ لوگ کر رہے ہیں) تو یہ بات ٹھہر چکی ہے کہ ایسے شخص کو دوزخ کی آگ اس طور پر نصیب ہوگی کہ وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔ یُحَادِدُکا معنی ہے یخالفُیعنی نافرمانی کر کے اور جہاد کو نہ جا کر جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کرے گا۔ یحادد کا باب مفاعلۃ ہے ‘ حَدٌّمادہ ہے۔ حد کا معنی ہے جانب۔ کسی کی مخالف کرنے والا بھی اپنے مخالف کی جہت سے ہٹ کر دوسری جانب چلا جاتا ہے۔ (1) [ یزید بن ہارون کی روایت ہے کہ حضرت ابوبکر نے ایک دن خطبہ دیا اور خطبہ میں فرمایا : ایک بندہ کو لا کر اللہ کے سامنے کھڑا کیا جائے گا۔ اللہ نے دنیا میں اس کو اپنی نعمتوں سے نوازا ہوگا ‘ اس کے رزق میں کشادگی عطا فرمائی ہوگی اور تندرستی بھی مرحمت کی ہوگی۔ اللہ کی پیشی ہوگی تو اس سے پوچھا جائے گا : تو نے اس دن کیلئے کیا عمل کئے تھے اور اپنے لئے پہلے سے کیا بھیجا تھا ؟ اس شخص کو اس وقت کوئی بھلائی نظر نہ آئے گی کیونکہ اس نے کچھ بھیجا ہی نہ ہوگا۔ وہ رونے لگے گا کہ آنسو بہنے لگیں گے۔ پھر اس کو عار دلائی جائے گی اور رسوا کیا جائے گا ‘ اتنا کہ آخر وہ کہہ اٹھے گا : اے میرے رب ! مجھے دوزخ میں بھیج دے ‘ اس جگہ سے تو مجھے رہائی دے۔ یہی مفہوم ہے اللہ کے قول مَنْ یُّحَادِدِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاَنَّ لَہٗ نَارَ جَھَنَّمَ الخ کا۔] ذلک الخزی العظیم۔ (اور) یہ بڑی رسوائی ہے۔ آیت سابقہ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَحَقُّ اَنْ یُّرُُوْہُ کی (معنوی) علت کا اظہار اس آیت میں کیا ہے۔ اللہ اگر ناراض ہو اور اس کے حکم کے خلاف عمل کیا جائے تو داخلۂ جہنم کے علاوہ کوئی اور نتیجہ نہیں نکل سکتا ہے۔ دوسروں کی ناراضگی ہیچ ہے ‘ کسی اور کا ناراض ہونا موجب نار نہیں۔ کسی شاعر کا قول ہے اور کیسا اچھا قول ہے : کاش ! تو (میرے لئے) شیریں ہوتا ‘ خواہ (میری) زندگی (ہر طرف سے) تلخ ہوتی اور کاش ! تو راضی رہتا ‘ خواہ سارا جہاں ناراض ہوتا اور کاش ! میرے تیرے تعلقات خراب نہ ہوتے ‘ خواہ ساری دنیا سے میرے علائق تباہ ہوجاتے۔ بغوی نے قتادہ اور سدی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ آیت یَحْلِفُوْنَ باللّٰہِ لَکُمْ لِیُرْضُوْکُمْ منافقوں کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی تھی ‘ حلاس بن سوید بھی اس گروہ میں شامل تھا۔ ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں کچھ برے الفاظ کہے تھے اور یہ بھی کہا تھا کہ اگر محمد ﷺ کا قول حق ہے تو (یقینا) ہم لوگ گدھوں سے بھی بدتر ہیں۔ حضرت عامر بن قیس نے اس واقعہ کی اطلاع رسول اللہ ﷺ کو پہنچا دی۔ پورا قصہ ہم آگے ذکر کریں گے۔
Top