Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 66
لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ١ؕ اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآئِفَةٍ مِّنْكُمْ نُعَذِّبْ طَآئِفَةًۢ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا مُجْرِمِیْنَ۠   ۧ
لَا تَعْتَذِرُوْا : نہ بناؤ بہانے قَدْ كَفَرْتُمْ : تم کافر ہوگئے ہو بَعْدَ : بعد اِيْمَانِكُمْ : تمہارا (اپنا) ایمان اِنْ : اگر نَّعْفُ : ہم معاف کردیں عَنْ : سے (کو) طَآئِفَةٍ : ایک گروہ مِّنْكُمْ : تم میں سے نُعَذِّبْ : ہم عذاب دیں طَآئِفَةً : ایک (دوسرا) گروہ بِاَنَّهُمْ : اس لیے کہ وہ كَانُوْا : تھے مُجْرِمِيْنَ : مجرم (جمع)
بہانے مت بناؤ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو۔ اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف کردیں تو دوسری جماعت کو سزا بھی دیں گے کیونکہ وہ گناہ کرتے رہے ہیں
لا تعتذروا تم (اب یہ بیہودہ) عذر نہ کرو ‘ یعنی جھوٹی معذرت کوشیاں نہ کرو ‘ تمہاری تمام معذرت کوشیوں کا جھوٹ ظاہر ہوچکا۔ قد کفرتم بعد ایمانکم تم اپنے کو مؤمن کہنے کے بعد کفر کرنے لگے۔ یعنی (دلوں میں کفر چھپا رکھنے کے باوجود کم از کم زبانوں سے تو) تم پہلے ایمان کا اظہار کرتے تھے ‘ اب رسول اللہ ﷺ پر طعن تشنیع کرنے کی وجہ سے تم علی الاعلان کافر ہوگئے اور تمہارا کفر ظاہر ہوگیا۔ ان نعف عن طآئفۃ منکم نعذب طآئفۃ بانھم کانوا مجرمین۔ اگر ہم تم میں سے بعض کو چھوڑ بھی دیں تاہم بعض کو تو ضرور سزا دیں گے ‘ اس وجہ سے کہ وہ (علم ازلی میں) مجرم تھے۔ یعنی اگر توبہ کرنے اور خلوص نیت رکھنے کی وجہ سے ہم تم میں سے بعض لوگوں کا قصور معاف کر بھی دیں گے تب بھی دوسرے منافقوں کو (جنہوں نے سچے دل سے) توبہ نہ کی ہوگی ‘ عذاب دیں گے کیونکہ نفاق پر جمے رہنے ‘ رسول کو ایذاء دینے اور قرآن و رسول سے استہزاء کرنے کے وہ مجرم ہیں (اور یہ جرائم ایسے نہیں کہ بغیر خالص توبہ کے معاف کئے جاسکیں) ۔ محمد بن اسحاق نے بیان کیا ہے کہ صرف ایک شخص مخشی بن حمیر اشجعی کا جرم معاف کیا گیا (ابن اسحاق کی مراد شاید یہ ہے کہ عن طائفۃ سے مراد صرف ایک شخص ہے ‘ یا یہ مراد ہے کہ روایتہ صرف ایک شخص کا قصور معاف ہونا ثابت ہے ‘ باقی لوگوں کا علم نہیں) مخشی منافقوں کے ساتھ ہنستا تو تھا مگر زبان سے اس نے کچھ نہیں کہا تھا اور سب سے الگ الگ راستہ میں چل رہا تھا ‘ بلکہ منافقوں کی بعض باتوں کو پسند بھی نہ کرتا تھا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس نے نفاق سے توبہ کی اور دعا کی : اے اللہ ! میں ایسی آیت سن رہا ہو جس سے میری آنکھوں کو ٹھنڈک مل رہی ہے۔ اس کے سننے سے تو رونگٹے کھڑ ہوجاتے ہیں اور دل لرز جاتے ہیں۔ اے اللہ ! میری موت اپنی راہ میں قتل کی شکل میں مقدر کر دے (اور یہ بھی) کوئی نہ کہے کہ میں نے غسل دیا ‘ میں نے دفن کیا (یعنی مجھے کوئی غسل بھی نہ دے نہ دفن کرے) چناچہ جنگ یمامہ میں یہ شہید ہوگئے اور سوائے ان کے کسی مسلمان کو معلوم بھی نہ ہوا کہ وہ کہاں شہید ہوئے (اور جنازہ کہاں گیا) مخشی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا تھا : یا رسول اللہ ﷺ ! میرا نام اور ولدیت بدل دیجئے (گویا کفر کے زمانہ کے نام سے بھی ان کو نفرت ہوگئی تھی) حضور ﷺ نے ان کا نام عبدالرحمن یا عبد اللہ رکھ دیا۔
Top