Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 69
كَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ كَانُوْۤا اَشَدَّ مِنْكُمْ قُوَّةً وَّ اَكْثَرَ اَمْوَالًا وَّ اَوْلَادًا١ؕ فَاسْتَمْتَعُوْا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ بِخَلَاقِهِمْ وَ خُضْتُمْ كَالَّذِیْ خَاضُوْا١ؕ اُولٰٓئِكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ
كَالَّذِيْنَ : جس طرح وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے قبل كَانُوْٓا : وہ تھے اَشَدَّ : بہت زور والے مِنْكُمْ : تم سے قُوَّةً : قوت وَّاَكْثَرَ : اور زیادہ اَمْوَالًا : مال میں وَّاَوْلَادًا : اور اولاد فَاسْتَمْتَعُوْا : سو انہوں نے فائدہ اٹھایا بِخَلَاقِهِمْ : اپنے حصے سے فَاسْتَمْتَعْتُمْ : سو تم فائدہ اٹھا لو بِخَلَاقِكُمْ : اپنے حصے كَمَا : جیسے اسْتَمْتَعَ : فائدہ اٹھایا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے بِخَلَاقِهِمْ : اپنے حصے سے وَخُضْتُمْ : اور تم گھسے كَالَّذِيْ : جیسے وہ خَاضُوْا : گھسے اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ حَبِطَتْ : اکارت گئے اَعْمَالُهُمْ : ان کے عمل (جمع) فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی لوگ هُمُ : وہ الْخٰسِرُوْنَ : خسارہ اٹھانے والے
(تم منافق لوگ) ان لوگوں کی طرح ہو، جو تم سے پہلے ہوچکے ہیں۔ وہ تم سے بہت زیادہ طاقتور اور مال و اولاد میں کہیں زیادہ تھے تو وہ اپنے حصے سے بہرہ یاب ہوچکے۔ سو جس طرح تم سے پہلے لوگ اپنے حصے سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ اسی طرح تم نے اپنے حصے سے فائدہ اٹھا لیا۔ اور جس طرح وہ باطل میں ڈوبے رہے اسی طرح تم باطل میں ڈوبے رہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہوگئے۔ اور یہی نقصان اٹھانے والے ہیں
کالذین من قبلکم ان لوگوں کی طرح جو ان سے پہلے گذر گئے۔ یعنی اے منافقو ! تم گزشتہ اقوام کے کافروں کی طرح ہو۔ یا یہ مطلب ہے کہ تم نے بھی وہی حرکتیں کیں جو تم سے پہلے کافروں نے کی تھیں۔ انہوں نے اللہ کے حکم سے سرتابی کی تھی ‘ اسلئے ان پر اللہ کی لعنت پڑی اور تم نے بھی انہی کی طرح سرکشی کی ‘ اسلئے اللہ نے تم پر لعنت کی۔ کانوا اشد منکم قوۃً و اکثر اموالاً واولادًا وہ شدت قوت اور کثرت مال و اولاد میں تم سے بھی زیادہ تھے۔ اقوام گزشتہ کے کافروں کو منافقوں کے ساتھ جن چیزوں میں مشابہت تھی ‘ ان کا اظہار اس آیت میں کیا ہے اور دونوں کے حالات کی وجہ مماثلت بیان کی گئی ہے۔ فاستمتعوا بخلاقھم فاستمتعتم بخلاقکم کما استمتع الذین من قبلکم بخلاقھم : سو انہوں نے اپنے (دنیوی) حصہ سے خوب فائدہ حاصل کیا اور تم نے بھی اپنے (دنیوی) حصہ سے خوب فائدہ حاصل کیا جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں نے اپنے حصہ سے فائدہ حاصل کیا تھا۔ فاستمتعتم سے خطاب منافقوں کو ہے۔ سابق کفار آخرت کی پسندیدہ ‘ لازوال نعمتوں کے حصول کی خواہش و کوشش سے روگرداں ہو کر دنیا کی حقیر ‘ ناپسندیدہ ‘ فنا پذیر لذتوں پر ریجھ گئے تھے۔ ان کی اس حالت کا بیان موجودہ منافقوں اور کافروں کے حال و عمل کی مذمت کی تمہید کے طور پر کیا گیا ہے ‘ کیونکہ یہ بھی انہی کے نقش قدم پر چل رہے تھے اور دونوں کا حال و مآل ایک جیسا تھا۔ وخضتم کالذی خاضوا اور تم بھی بری باتوں میں ویسے ہی گھسے جیسا وہ گھسے تھے۔ یعنی تم بھی باطل اور لہو و لعب میں ویسے ہی گھس گئے جیسے وہ گھسے تھے (الذیاسم موصول مفرد ہے اور خاضوا جمع کا صیغہ ہے اور دونوں میں مطابقت نہیں ہے ‘ اسلئے) الذی سے مراد یا تو خوض (مصدر ہے ‘ یعنی تمہارا باطل میں گھسنا ان کے گھسنے کی طرح) ہے ‘ یا الذی سے مراد فوج (گروہ) ہے (جو لفظ کے اعتبار سے اگرچہ مفرد ہے لیکن معنوی حیثیت سے جمع ہے اور اس کا صلہ جمع کا صیغہ ہوسکتا ہے) ۔ اولئک حبطت اعمالھم فی الدنیا والاخرۃ واولئک ھم الخسرون۔ اور ان لوگوں کے (اچھے) کام دنیا و آخرت میں اکارت گئے اور وہ لوگ بڑے نقصان میں ہیں۔ اعمال برباد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا اور آخرت میں اعمال کے ثواب کے مستحق نہیں قرار پائے۔ حاصل مراد یہ ہے کہ جس طرح ان کے اعمال اکارت گئے اور وہ خسران مآل ہوئے ‘ اسی طرح تمہارے اعمال بھی اکارت جائیں گے اور تم بھی دونوں جہاں میں خسران نصیب ہو گے۔ حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم بھی اپنے سے پہلوں کے پیچھے چلو گے بالشت بہ بالشت اور دست بدست (یعنی قدم بقدم ان کی پیروی کرو گے) یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے بھٹ میں گھسے ہوں تو تم بھی ان کے پیچھے گھسو گے (یعنی کامل پیروی کرو گے ‘ جو برے سے برے کام انہوں نے کئے ہیں ویسے ہی تم کرو گے) ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! کیا (پہلے لوگوں سے مراد) یہودی و نصاریٰ ہیں ؟ فرمایا : اور کون۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت کے یہ الفاظ ہیں : پس لوگ نہیں ہوں گے مگر وہی (یہودی و نصاریٰ ) رواہ البخاری۔ حاکم نے حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اپنے سے اگلوں کی راہ پر بالشت بہ بالشت اور ہاتھ بہ ہاتھ ضرور چلو گے یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی گوہ کے سوراخ میں گھسا تھا تو تم بھی گھسو گے ‘ اگر ان میں سے کسی نے اپنی بیوی سے سر راہ جماع کیا ہوگا (یعنی لوگوں کے سامنے بےحیائی کے ساتھ) تو تم بھی ایسا ہی کرو گے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن مسعود نے فرمایا : تم لوگ علامات و رفتار (زندگی) میں بنی اسرائیل کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت اختیار کرو گے ‘ تسمہ تسمہ ان کے اعمال کی پیروی کرو گے (یعنی قدم بقدم ان کے پیچھے چلو گے) مگر مجھے یہ معلوم نہیں کہ بچھڑے کی پوجا بھی کرو گے یا نہیں۔
Top