Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 81
فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللّٰهِ وَ كَرِهُوْۤا اَنْ یُّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ قَالُوْا لَا تَنْفِرُوْا فِی الْحَرِّ١ؕ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا١ؕ لَوْ كَانُوْا یَفْقَهُوْنَ
فَرِحَ : خوش ہوئے الْمُخَلَّفُوْنَ : پیچھے رہنے والے بِمَقْعَدِهِمْ : اپنے بیٹھ رہنے سے خِلٰفَ : خلاف (پیچھے) رَسُوْلِ : رسول اللّٰهِ : اللہ وَكَرِهُوْٓا : اور انہوں نے ناپسند کیا اَنْ : کہ يُّجَاهِدُوْا : وہ جہاد کریں بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِهِمْ : اور اپنی جانیں فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا لَا تَنْفِرُوْا : نہ کوچ کرو فِي الْحَرِّ : گرمی میں قُلْ : آپ کہ دیں نَارُ جَهَنَّمَ : جہنم کی آگ اَشَدُّ : سب سے زیادہ حَرًّا : گرمی میں لَوْ : کاش كَانُوْا يَفْقَهُوْنَ : وہ سمجھ رکھتے
جو لوگ (غزوہٴ تبوک میں) پیچھے رہ گئے وہ پیغمبر خدا (کی مرضی) کے خلاف بیٹھے رہنے سے خوش ہوئے اور اس بات کو ناپسند کیا کہ خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کریں۔ اور (اوروں سے بھی) کہنے لگے کہ گرمی میں مت نکلنا۔ (ان سے) کہہ دو کہ دوزخ کی آگ اس سے کہیں زیادہ گرم ہے۔ کاش یہ (اس بات) کو سمجھتے
فرح المخلفون بمقعدھم خلف رسول اللہ (غزوۂ تبوک سے) رسول اللہ کے پیچھے بیٹھ رہنے والے اپنے اس بیٹھ رہنے پر خوش ہوئے (یعنی جو لوگ ساتھ لے جانے سے چھوڑ دئیے گئے ‘ وہ خوش ہوئے) ۔ ابو عبیدہ نے کہا : خلاف کا معنی ہے پیچھے ‘ یعنی بعد رسول اللہ ﷺ کے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ خلافکا معنی (اس جگہ) مخالفت ہے ‘ اس صورت میں یہ خوش ہونے کی علت کا اظہار ہوگا یعنی جن لوگوں کو ساتھ لے جانے سے چھوڑ دیا گیا ‘ وہ اسلئے خوش ہوئے کہ وہ رسول ﷺ کے مخالف تھے۔ وکرھوآ ان یجاھدوا باموالھم وانفسھم فی سبیل اللہ اور ان کو مال و جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ناگوار تھا۔ اس جملہ میں مسلمانوں کی درپردہ تعریف ہے جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے جان و مال کی قربانی دی اور رضائے مولیٰ کو حاصل کیا۔ وقالوا الا تنفروا فی الحر اور انہوں نے (آپس میں بھی اور مسلمانوں کو جہاد سے روکنے کیلئے بھی) کہا کہ گرمی میں جہاد کیلئے نہ نکلو۔ ابن جریر نے حضرت ابن عباس کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو اپنے ہمراہ اٹھ کھڑے ہونے کا حکم دیا۔ یہ زمانہ گرمی کا تھا۔ اس پر ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! سخت گرمی ہے ‘ آپ کیلئے باہر نکلنا ناقابل برداشت ہے۔ اس گرمی میں جہاد کیلئے نہ نکلئے ‘ اس پر نازل ہوا۔ قل نار جھنم اشد حرًا آپ کہہ دیجئے کہ جہنم کی آگ بہت زیادہ گرم ہے اور تم نے حکم جہاد کی مخالفت کر کے جہنم کی آگ کو اختیار کرلیا ‘ یعنی تم بڑے جاہل ہو۔ جو شخص ایک ساعت کی مشقت کو برداشت نہ کرے اور اس کی وجہ سے سخت ترین دوامی تکلیف میں پڑجائے ‘ وہ بڑا جاہل ہے۔ لو کانوا یفقھون۔ کیا خوب ہوتا اگر وہ سمجھتے۔ یعنی اگر ان کو معلوم ہوجاتا کہ جہنم کی آگ کیسی ہے اور ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا تو پھر طاعت پر آرام کو ترجیح دے کر جہنم کی آگ کو نہ اختیار کرتے۔ محمد بن یوسف صالحی کا بیان ہے کہ جد نے جبار بن منحر اور اپنے ان ساتھیوں سے جو بنی سلمہ کے تھے ‘ کہا : اس گرمی میں جہاد کو نہ نکلو۔ جد کو جہاد کی رغبت نہ تھی ‘ جہاد کی حقانیت میں اس کو شک تھا اور رسول اللہ ﷺ کے متعلق وہ بدگمانی پھیلا نا چاہتا تھا (اسلئے گرمی کے بہانے سے اس نے لوگوں کو جہاد سے روکا) اس پر اللہ نے آیت قُلْ نَارُ جَھَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّاط نازل فرمائی۔ ابن جریر نے محمد بن کعب قرظی کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سخت گرمی میں تبوک کی طرف (بغرض جہاد) تشریف لے گئے۔ اس پر بنی سلمہ کے ایک شخص نے کہا : گرمی میں جہاد کو نہ جاؤ۔ اس کے رد میں اللہ نے نازل فرمایا : قُلْ نَارُ جَھَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّاط لَوْ کَانُوْا یَفْقَھُوْنَ ۔ بیہقی نے دلائل میں دو طریقوں سے لکھا ہے کہ ایک منافق نے کہا تھا : گرمی میں نہ نکلو ‘ اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی۔
Top