Mazhar-ul-Quran - Ar-Ra'd : 26
اَللّٰهُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُ١ؕ وَ فَرِحُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ؕ وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا مَتَاعٌ۠   ۧ
اَللّٰهُ : اللہ يَبْسُطُ : کشادہ کرتا ہے الرِّزْقَ : رزق لِمَنْ يَّشَآءُ : جس کے لیے وہ چاہتا ہے وَيَقْدِرُ : تنگ کرتا ہے وَفَرِحُوْا : اور وہ خوش ہیں بِالْحَيٰوةِ : زندگی سے الدُّنْيَا : دنیا وَمَا : اور نہیں الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی فِي : مقابلہ (میں) الْاٰخِرَةِ : آخرت اِلَّا : مگر (صرف) مَتَاعٌ : متاع حقیر
اللہ روزی کو کشادہ کرتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے اور تنگ کردیتا ہے (جس کے لیے چاہتا ہے) اور تنگ کردیتا ہے (جس کے لیے چاہتا ہے) اور کافر لوگ دنیا کی (چند روزہ) زندگی پر اترا گئے اور دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں مگر کچھ دن برت لینا
دنیا میں مفلسی اور خوشحالی کا معمہ۔ نیک لوگوں کی مفلسی کا زکر مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نیک خصلت لوگوں سے اپنی رضا مندی ظاہر فرمائی اور ان سے جنگ کا وعدہ فرمایا اور بدخصلت لوگوں سے ناخوشنودی ظاہر فرمائی اور دوزخ ان کا ٹھکانا فرمایا۔ اس پر یہ خیال دل میں گزر سکتا تھا کہ دنیا میں اکثر ایسے بدخصلت لوگ جن کا ذکر اس آیت میں ہے، بڑی آسائش اور خوشحالی سے بسر کرتے ہیں اور نیک خصلت لوگ تنگ حال ہیں۔ پھر جن لوگوں سے اللہ راضی نہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے آسائش کس مصلحت اور حکمت سے دے رکھی ہے۔ اس خیال کو اللہ تعالیٰ نے دفع فرما دیا کہ دنیا کی فارغ البارلی نیک عملی اور بدعملی پر موقوف نہیں ہے، نیک عملی اور بدعملی پر موقوف نہیں ہے، نیک عملی اور بد عملی کے موافق جزا و سزا تو خاص آخرت میں اللہ تعالیٰ نے رکھی دنیا میں بعضی مصلحت اور بعض حکمت کے موافق اللہ تعالیی نے نیکوں کو تنگ حال اور بعضے بدوں کو خوشحال رکھا اور اس مصلحت اور حکمت کا بھید اللہ کو ہی معلوم ہے۔ لیکن خلاصہ یہ ہے کہ نیک لوگوں کے لیے عقبی میں ہمیشہ کی راحت رکھی گئی ہے اگر دنیا میں چند روزہ کوئی تکلیف ہو تو وہ خیال کرنے کے قابل نہیں ہے اسی طرح بد لوگوں کی چند روزہ زندگی اگر آسائش سے گزری تو وہ دائمی تنگ حالی اور ذلت عقبی مٰ رکھی گئی ہے دنیا کی خوشحالی رپ اترانا اور خوش ہونا انہی لوگوں کا کام ہے جو عقبی کے منکر ہیں۔
Top