Mazhar-ul-Quran - Al-Hijr : 6
وَ قَالُوْا یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌؕ
وَقَالُوْا : اور وہ بولے يٰٓاَيُّھَا : اے وہ الَّذِيْ نُزِّلَ : وہ جو کہ اتارا گیا عَلَيْهِ : اس پر الذِّكْرُ : یاد دہانی (قرآن) اِنَّكَ : بیشک تو لَمَجْنُوْنٌ : دیوانہ
اور کافر بولے کہ اے وہ شخص جس پر قرآن اترا بیشک تم مجنوں ہو
کفار کا حضور ﷺ سے تمسخر مطلب یہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے قریش کو قرآن شریف کی آیتیں پڑھ کر سنائیں اور قریش سے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں تو قریش نے دو باتیں کہیں : اول تو یہ کہ اللہ کے رسول کو انہوں نے دیوانہ بتلایا۔ دوسری بات یہ کہی جس کا ذکر نیچے کی آیت میں ہے کہ تم اللہ کے رسول ہو تو تمہارے کلام کی تصدیق کو آسمان سے فرشتے ہماری آنکھوں کے سامنے کیوں نہیں آتے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرما کر اپنے رسول کریم ﷺ کو تسلی دی اور قریش کی پہلی بات کا جواب یہ دیا کہ اے محبوب ﷺ ان لوگوں کے دیوانہ کہنے سے تم کو کچھ رنج والم میں نہ پڑنا چاہیے۔ یہ کچھ نئی بات نہیں ہے آپ سے پہلے جو اللہ کے رسول تھے ان سے بھی مخالف لوگ اسی طرح ٹھٹھا کرتے رہے ہیں۔ دوسری بات کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہاں اور سورة انعام میں جو دیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ فرشتوں کی اصلی صورت تو ان منکروں کو موت کے وقت یا عذاب الٰہی کے وقت نظر آوے گی۔ اب بیچ میں اگر فرشتوں کو انسان کی صورت میں ان کے پاس بھیج دیا جاوے تو ان منکروں کو یہی شک رہے گا کہ یہ انسان اللہ کا رسول کیونکر ہوا۔ پھر فرمایا یہ لوگ تو ایسے ڈھیٹ ہوگئے ہیں کہ دن دہاڑے آسمان پر چڑھ کر سب فرشتوں کو بھی اگر یہ دیکھ لیویں تو اس کو بھی جادو بتلادیں گے۔ خدا فرشتوں کو اس وقت بھیجتا ہے جب اپنے رسول پر وحی نازل کرتا ہے اور ایک اس وقت فرشتے کو بھیجتا ہے جب کسی قوم پر عذاب بھیجنا چاہتا ہے، یا انسان کی موت لے کر فرشتے کو بھیجتا ہے۔ پھر جب ان پر عذاب آئے گا تو ایک ذرا مہلت نہیں ملے گی۔ پھر فرمایا کہ اپنا کلام یہ قرآن مجید اپنے رسول پر ہم اتارتے ہیں ہم ہی اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہاں سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ کبھی اس میں ردو بدل نہ ہوگا جس طرح پہلی کتابوں توریت وانجیل میں ردوبدل ہوگیا۔
Top