Mazhar-ul-Quran - An-Nahl : 9
وَ عَلَى اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَ مِنْهَا جَآئِرٌ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِیْنَ۠   ۧ
وَ : اور عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر قَصْدُ : سیدھی السَّبِيْلِ : راہ وَمِنْهَا : اور اس سے جَآئِرٌ : ٹیڑھی وَلَوْ شَآءَ : اور اگر وہ چاہے لَهَدٰىكُمْ : تو وہ تمہیں ہدایت دیتا اَجْمَعِيْنَ : سب
اور سیدھا رستہ اللہ تک پہنچتا ہے اور ان میں بعض ٹیڑھی راہیں ہیں، اگر وہ چاہتا تو سب کو راہ پر لاتا
دین کا رستہ ان آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ پاک نے ان جانوروں کا ذکر کیا جن پر لوگ سوار ہو کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں اور دنیا میں رستہ طے کرتے ہیں تو اب دین کے رستوں کا بیان کیا اور فرمایا کہ دو راہیں ہیں : ایک تو سیدھی، دوسری کج، جو سیدھی راہ ہے وہ خدا تک پہنچتی ہے اور جو کج ہے وہ شیطانی راہ ہے انسان کو دوزخ میں لے جاتی ہے۔ توحید کا بیان ارشاد ہوتا ہے کہ یہ خدا ہی کا کام ہے کہ اس نے مینہ برسا کر تمہارے پانی پینے کو ندی نالے اور تالابوں میں جمع کر رکھا ہے۔ اگر وہ چاہتا تو آسمان سے کڑوا اور کھاری پانی اتارتا جس کے پینے پر انسان مجبور ہوتا۔ یہ بہت ہی بڑا احسان ہے جو میٹھا پانی برساتا ہے اور زمین کو تر رکھتا ہے جس میں کھیتی ہوتی ہے اور طرح طرح کے درخت اور گھاس اگتی ہے، اور لوگ اپنے اپنے جانوروں کو چراتے ہیں اور اس پانی کے سبب سے زیتون، کھجوریں، انگور اور طرح طرح کے میوے پیدا ہوتے ہیں جن کو لوگ کھاتے ہیں۔ زیتون کا تیل بھی بنتا ہے جس کو آدمی اور کام میں بھی لاتا ہے۔ جو شخص ان باتوں میں غور فکر کرتا ہے وہ فورا سمجھ لیتا ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا بہت بڑی قدرت والا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ کیونکہ ان چیزوں کے پیدا کرنے میں کسی کا کچھ دخل نہیں ہے۔
Top