بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mazhar-ul-Quran - Al-Israa : 1
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
سُبْحٰنَ : پاک الَّذِيْٓ : وہ جو اَسْرٰى : لے گیا بِعَبْدِهٖ : اپنے بندہ کو لَيْلًا : راتوں رات مِّنَ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام اِلَى : تک الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا : مسجد اقصا الَّذِيْ : جس کو بٰرَكْنَا : برکت دی ہم نے حَوْلَهٗ : اس کے ارد گرد لِنُرِيَهٗ : تاکہ دکھا دیں ہم اس کو مِنْ اٰيٰتِنَا : اپنی نشانیاں اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْبَصِيْرُ : دیکھنے والا
اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بخشش کرنے والا مھربان ہے۔
خواص سورة بنی اسرائیل : اس سورت کو سات مرتبہ اعتقاد کے ساتھ ہر روز پڑھنا دین و دنیا کی جملہ حاجات کو بر لاتا ہے۔ اور جو بچہ کند ذہن ہو یا زبان میں لکنت ہو تو اس سورت کو زعفران سے طشتری پر لکھ کر پانی سے کھو کر پلا دیں۔ معراج کا تفصیلی بیان یہ ایک جلیل معجزہ اور عظیم نعمت ہے جو آپ کے سوا کسی کو میسر نہیں ہوئی۔ نبوت کے بارہویں سال رجب کی ستائیسویں شب کو معراج ہوئی۔ اگرچہ آیت میں صرف مسجد بیت المقدس تک جو چالیس رات کی مسافت ہے، شب کے چھوٹے حصہ میں تشریف لے جانا ثابت ہے اس کا منکر کافر ہے اور آسمان کی سیر اور مرتبہ قرب پر پہنچنا صحیح احادیث سے ثابت ہے اس کا منکر گمراہ ہے۔ معراج شریف بحالت بیداری جسم وروح دونوں کے ساتھ واقع ہوئی اور روحانی معراج تو بار بار ہوتی رہی یہی جمہور اسلام کا عقیدہ ہے اور اصحاب رسول اللہ ﷺ کی کثیر جماعتیں اور حضور کے اصحاب اسی کے معتقد ہیں۔ اس شب کو ام ہانی ؓ کے حجرہ میں سے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) مسجد حرام لے گئے۔ سینہ چاک کیا اور زمزم کے پانی سے دل مبارک کو دھو کر اس کے مقام پر رکھ دیا۔ اور پھر ایک جانور سفید رنگ جس کا نام براق ہے، جس کا ایک قدم اتنی دور تک جاتا ہے جہاں تک نظر جاسکے اس پر سوار کیا اور تھوڑی دیر میں بیت المقدس پہنچا دیا جب حضور وہاں تشریف لے گئے تو ملائکہ اور تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ پھر براق پر سوار ہو کر آسمانوں پر تشریف لے گئے۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام، دوسرے پر حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور تیسرے آسمان پر حضرت یوسف (علیہ السلام) اور چوتھے پر ادریس علیہ السلام، پانچویں پر ہارون علیہ السلام، چھٹے پر حضرت موسیٰ علیہ اسلام، ساتویں پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دوبارہ دیکھا، اور ان کو سلام کیا۔ اور اعزاز واکرام کے ساتھ سب نے جواب دیا اور تشریف آوری کی مبارک باد دی اور جب سدرۃ المنتہیٰ ، بیت المعمور، حوض کوثر، نہر رحمت، وغیرہ ملاحظہ فرماچکے تو حضرت جبریل (علیہ السلام) نے آگے جانے سے عذر کیا کہ اب اگر ایک ذرہ بھی بڑھوں گا تو جل جاؤں گا وہاں سے آپ تنہا ایسے مقام پر پہنچے کہ براق بھی چلنے سے باز رہا۔ پھر رف رف پر سوار ہوئے اور پائے عرش کے قریب پہنچے اور بار گاہ الہی سے خطاب سبا کہ مجھ سے قریب ہو، پھر مقام قرب خاص میں ترقی فرمائی اور اس قرب اعلیٰ میں پہنچے کہ جس تصور سے خلق کے وہم وفکر عاجز ہیں۔ وہاں پہنچ کر اللہ کی تعریف بیان کی اور جواب سے مشرف ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے سلام سے معزز ہوئے پھر آپ نے اس سلام کے اندر اپنی امت کو داخل فرمایا۔ وہ سب کلمات التحیات (نماز) میں داخل ہیں۔ پھر اللہ کی رحمت اور کرم ہوا اور انعامات عالیہ اور خصوصیات سے سرفراز فرمایا۔ پھر حضور صلی اللہ عنہ وسلم سے کچھ دریافت کیا جس کا جواب آپ نہ دے سکے، پس اللہ تعالیٰ نے اپنا دست قدرت دونوں شانوں کے درمیان رکھا جس سے کچھ سردی پائی اور آنحضرت ﷺ کو علوم اولین وآخرین عطا فرمائے۔ پھر امت پر پچاس وقت کی نماز فرض کی گئی۔ جب آنحضرت ﷺ واپس ہوئے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ حال کہا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی امت سے اتنی عبادت نہ ہو سکے گی۔ غرضیکہ کئی بار حق تعالیٰ کے پاس آنے جانے پر آخر پا انچ وقت کی نمازیں فرض ہوئیں اور پچاس کا ثواب عطا کیا گیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :" میں نے معراج میں اپنے پروردگار کو دیکھا جنت دوزخ کے حالات کا معائنہ کیا "۔ پھر اسی رات واپس آگئے۔ حضرت ام ہانی ؓ کو واقعہ سنایا اور یہ فرمایا کہ تمام انبیاء (علیہ السلام) سے ملاقات کی اور انہیں نماز پڑھائی۔ پھر آپ مسجد حرام میں آگئے اور قریش کو معراج کی خبر دی۔ سب نے محال جان کر تعجب کیا اور امتحاناً آپ سے بیت المقدس کے راستہ کے حالات پوچھنا شروع کئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی نظر سے حجاب اٹھا دیا اور جو جو باتیں انہوں نے پوچھیں آنحضرت ﷺ نے فوراً بتا دیں۔ لیکن صعیف الایمان مرتد ہوگئے کچھ لوگ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی طرف دوڑے گئے ان سے یہ واقعہ بیان کیا۔ انہوں نے کہا :" اگر رسول اللہ ایسا فرماتے ہیں تو بلکل ٹھیک ہے۔ اگر اس سے زیادہ تعجب انگیز بات ہوتی تو میں اس کی بھی تصدیق کرتا " اسی دن سے آپ کا لقب صدیق ہوگیا۔ روایت ہے کہ جب رسول خدا ﷺ درجات عالیہ اور مراتب رفیعہ پر ممتاز ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : ہم کس چیز سے آپ کی تکریم کریں۔ آپ نے عرض کیا :" اپنا بندہ بنا لینے سے "۔ چناچہ یہ آیت نازل ہوئی۔
Top