Mazhar-ul-Quran - Al-Israa : 5
فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَیْكُمْ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ وَ كَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا
فَاِذَا : پس جب جَآءَ : آیا وَعْدُ : وعدہ اُوْلٰىهُمَا : دو میں سے پہلا بَعَثْنَا : ہم نے بھیجے عَلَيْكُمْ : تم پر عِبَادًا لَّنَآ : اپنے بندے اُولِيْ بَاْسٍ : لڑائی والے شَدِيْدٍ : سخت فَجَاسُوْا : تو وہ گھس پڑے خِلٰلَ الدِّيَارِ : شہروں کے اندر وَكَانَ : اور تھا وَعْدًا : ایک وعدہ مَّفْعُوْلًا : پورا ہونے والا
اور ہم نے یہ وحی (بطور پیشین گوئی) بتادی بنی اسرائیل کو توریت میں کہ تم ضرور فساد پھیلاؤ گے زمین میں دو مرتبہ اور ضرور بڑی سخت سرکشی کرو گے
بنی اسرائیل کی بربادی اس آیت میں ارشاد ہے کہ پہلی دفعہ انہوں نے احکام توریت کی مخالفت کی اور حضرت ارمیا کو قتل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے جالوت لو مسلط کیا۔ اس نے یہود کے علماء کو چن چن کر قتل کر ڈالا اور توریت کو جلادیا۔ مسجد اور گھروں میں گھس گھس کر لوگوں کو قتل و غارت کرتا شروع کیا اور ستر ہزار آدمی انہوں نے قید کر لئے۔ یہ وعدہ اللہ پاک کا ضرور ہونے والا تھا۔ جب بنی اسرائیل نے توبہ کی اور تکبر و فساد سے باز آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو دولت اور قوت دی اور حضرت داؤد (علیہ السلام) کے ہاتھ سے جالوت قوم کے ہلاک کیا اور ان کو مسلط کیا لیکن ان کو یہ بات جتلا دی تھی کہ دیکھو یاد رکھو اب بھی اگر ٹھیک راہ پر رہے اور نیکوکار بنے رہے تو تمہاری ہی جان کو اس سے فائدہ پہنچے گا اور اگر پھر ایسی حرکت کی تو تمہیں تمہاری جان کے لالے پڑجائیں گے۔ اگرچہ یہ خطاب بنی اسرائیل کو تھا مگر کفار قریش بھی اس میں شامل ہیں کہ اگر تم بھی ویسا ہی فساد کرو گے، اور کتاب اللہ کی مخالفت پر آمادہ ہو کر نبی برحق محمد ﷺ کو جھٹلاؤ گے تو اس کا وبال تمہاری گردن پر پڑے گا۔ بہر حال بنی اسرائیل پھر بھی راہ راست پر نہیں آئے اور پھر دوبارہ فساد اٹھانے لگے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کے درپے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بچالیا اور اپنی طرف اٹھا لیا۔ پھر انہوں نے حضرت زکریا اور یحییٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اہل فارس اور روم کو مسلط کیا۔ انہوں نے وہ قتل و غارت کیا کہ بیت المقدس کو ویران کردیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرمایا کہ تمہارا رب برسر رحم آگیا ہے اگر تم راہ راست پر آگئے تو پھر وہی شان و شوکت تمہیں دے دوں گا۔ یعنی یہ رحمت جس کا اللہ پاک نے بنی اسرائیل سے وعدہ کیا تھا جناب سرور کائنات فخر موجودات ﷺ ہیں اور یہ بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں جتا دیا تھا کہ اگر پھر تیسری مرتبہ وہی فساد اٹھاؤ گے تو یاد رکھو وہی عذاب تم پر نازل کریں گے۔ اور آخرت میں بہت ہی برا گھر ان کے واسطے تیار ہے وہاں جہنم کے قید خانے میں یہ قید رہیں گے۔ چناچہ تیسری مرتبہ پھر ایسا کیا اور زمانہ پاک مصطفیٰ ﷺ میں حضور اقدس علیہما الصلوٰۃ والسلام کی تکذیب کی۔ پھر قیامت تک کے لئے ان پر ذلت لازم کردی گئی اور مسلمان ان پر مسلط فرما دئیے گئے۔ جیسا کہ قرآن شریف میں یہود کی نسبت وارد ہوا۔
Top