Mazhar-ul-Quran - Al-Kahf : 69
قَالَ سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ صَابِرًا وَّ لَاۤ اَعْصِیْ لَكَ اَمْرًا
قَالَ : اس نے کہا سَتَجِدُنِيْٓ : تم مجھے پاؤگے جلد اِنْ شَآءَ اللّٰهُ : اگر چاہا اللہ نے صَابِرًا : صبر کرنے والا وَّلَآ اَعْصِيْ : اور میں نافرمانی نہ کروں گا لَكَ : تمہارے اَمْرًا : کسی بات
(موسیٰ نے) کہا :” انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں تمہارے کسی حکم کے خلاف نہ کروں گا “
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا :” انشاء اللہ میں برداشت کروں گا، اور کسی بات میں آپ سے اختلاف نہ کروں گا “۔ پھر خضر (علیہ السلام) نے کہا :” اچھا اگر تم میرے ساتح رہتے ہو تو مجھ سے کوئی بات نہ پوچھنا ، جب تک کہ میں خود ہی تم سے اس کا ذکر نہ کر دوں “۔ یعنی میرے کسی فعل پر اعتراض نہ کرنا، کہ تم نے یہ کیوں کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ سب شرائط تسلیم کیں اور مع یوشع (علیہ السلام) کے حضرت خضر (علیہ السلام) کے ساتھ ہو لئے۔ پھر وہ چلے یہاں تک کہ دریا میں ان کو ایک کشتی ملی اس پر سوار ہوئے۔ اگرچہ ناخدا اول دہلہ میں ان کے سوار ہونے پر راضی نہ تھا۔ لیکن بعد معرفت حضرت خضر (علیہ السلام) کے ان کو بقدر تعظیم کشتی پر سوار کرلیا تو حضرت خضر (علیہ السلام) نے لوگوں سے پوشیدہ اس میں شگاف کردیا یعنی ایک تختہ نکال دیا۔ موسیٰ نے کہا :” واہ صاحب یہ کیا کیا ؟ انہوں نے بغیر کرایہ سوار کیا، اس کے عوض آپ کی احسان مندی یہ کہ کشتی لوگوں کے لوگوں کو ڈبانے کے لئے کشتی کو پھاڑ ڈالا۔ حضرت یہ کیا سوجھی ابھی کشتی میں پانی بھر جائے گا۔ حضرت خضر نے کہا :” چل دیجئے کیا میں کہ نہیں چکا تھا کہ تم میرے ساتھ ہرگز نہیں ٹھہر سکو گے “ موسیٰ نے کہا :” آپ بھول چوک پر مجھ سے موخذہ نہ کیجئے اور میرے معاملہ میں مجھ پر سختی نہ کیجئے “۔ یعنی موسیٰ نے عذر کیا کہ بھول کر سوال کیا، آئندہ ایسا نہ ہوگا۔ الغرض کشتی سے اتر کر خشکر میں روانہ ہوئے تو دیکھا ایک گاؤں کے متصل چند لڑکے کھیل رہے تھے۔ ایک ان میں نہایت حسین وخوبصورت تھا۔ جب اس لڑکے کے پاس پہنچے تو خضر (علیہ السلام) نے اس کو علیحدہ کر کے آڑ میں لے جا کر مار ڈالا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا :” اس معصوم بچے کو تم نے ناحق قتل کیا، یہ بری بات کی “۔
Top