Mazhar-ul-Quran - Al-Kahf : 90
حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلٰى قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَلْ لَّهُمْ مِّنْ دُوْنِهَا سِتْرًاۙ
حَتّٰٓي : یہاں تک کہ اِذَا بَلَغَ : جب وہ پہنچا مَطْلِعَ : طلوع ہونے کا مقام الشَّمْسِ : سورج وَجَدَهَا : اس نے اس کو پایا تَطْلُعُ : طلوع کر رہا ہے عَلٰي قَوْمٍ : ایک قوم پر لَّمْ نَجْعَلْ : ہم نے نہیں بنایا لَّهُمْ : ان کے لیے مِّنْ دُوْنِهَا : اس کے آگے سِتْرًا : کوئی پردہ
یہاں تک کہ جب سورج نکلنے کی جگہ (یعنی مشرق میں) پہنچا اس نے پایا سورج ایک ایسے گروہ پر نکلتا ہے جن کے لئے ہم نے سورج سے بچنے کے لئے کوئی آڑ نہیں رکھی
حضرت ذوالقرنین (علیہ السلام) کے سفر کا نتیجہ پھر حضرت ذوالقرنین (علیہ السلام) نے مشرق کی طرف کا سفر کیا، اور ایسی سرزمین پر پہنچا جہاں پہلے پہل سورج نکلتا معلوم ہوتا ہے۔ اور وہاں اس نے ایک ایسی قوم کو دیکھا جن کے لئے سورج کی دھوپ سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کوئی آڑ نہیں بنائی۔ یعنی اس سرزمین پر نہ قدرتی کچھ پہاڑ درخت ایسے ہیں کہ ان کی آڑ سے وہ لوگ دھوپ سے بچ سکیں۔ اور وحشی پن کے سبب سے نہ اتنی عقل ان لوگوں میں ہے کہ وہ مکان بنادیں۔ زمین میں سرنگیں کھود رکھی ہیں، دھوپ کے وقت ان میں گھس جاتے ہیں، اور ٹھنڈے وقت میں ان سرنگوں سے نکل کر دنیا کا کچھ کام دھندا کرلیتے ہیں۔ آگے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ذوالقرنین (علیہ السلام) نے جو حکم پہلے مغرب والوں کو سنایا تھا، وہی حکم اس مشرقی قوم کو سنایا :'' اس قوم کے جو لوگ شرک پر اڑے رہیں گے، ان کو دنیا میں طرح طرح کے عذاب سے قتل کیا جاوے گا، اور عقبیٰ میں ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ سخت عذاب کرے گا۔ اور اس قوم کے جو لوگ اللہ کی عبادت اور نیک عمل کریں گے، دنیا میں ہم لوگ بھی اس سے اچھی طرح پیش آویں گے، اور عقبیٰ میں بھی ان کو بڑا اجر ملے گا ''۔ پھر فرمایا کہ ہم علام الغیوب ہیں، حضرت ذوالقرنین (علیہ السلام) کا پورا حال ہم کو معلوم ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس کے پاس کس قدر سپاہ تھی، اور اس کے پاس کیا کیا سامان تھا، اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا بالکل برحق ہے۔
Top