Mazhar-ul-Quran - Maryam : 27
فَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗ١ؕ قَالُوْا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا
فَاَتَتْ بِهٖ : پھر وہ اسے لیکر آئی قَوْمَهَا : اپنی قوم تَحْمِلُهٗ : اسے اٹھائے ہوئے قَالُوْا : وہ بولے يٰمَرْيَمُ : اے مریم لَقَدْ جِئْتِ : تو لائی ہے شَيْئًا : شے فَرِيًّا : بری (غضب کی)
پھر وہ اپنی قوم کے پاس آئی عیسیٰ کو گود میں لئے ہوئے، لوگوں نے کہا :" اے مریم ! تو نے بہت بری بات کی
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کا ذکر اور حضرت مریم (علیہا السلام) پر تہمت اور چالیس روز کے بچہ کی شہادت جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوچکے تو بعد چلہ کے مریم (علیہا السلام) ان کو گود میں لے کر اپنی قوم کے پاس آئیں۔ وہاں لوگوں کا ان پر ہنگامہ ہوا، اور طعن وتشنیع شروع ہوئی۔ کہنے لگے :" اے مریم ! یہ تو نے بری بات کی۔ اے ہارون کی بہن ! (حضرت ہارون برادر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہی کی طرف نسبت کی کیونکہ ان کی نسل سے تھیں، اس لئے ہارون کی بہن کہا یہ عرب کا محاورہ ہے) ۔ تیرا باپ تو بدکار نہ تھا اور نہ تیری ماں فاحشہ تھی، تو حرام کار کہاں سے پیدا ہوئی "۔ مریم نے اپنے بچہ کی طرف اشارہ کردیا کہ خود اسی سے دریافت کرلو کہ میرا تو خاموشی کا روزہ ہے، مگر جس لڑکے کی پیدائش کو انوکھا کام کہا جاتا ہے اس کی جواب دہی خود وہ لڑکا ہی کر لیوے گا۔ حضرت مریم (علیہا السلام) کے اس اشارہ کے مطلب کو سمجھ کر قوم کے لوگوں کو بہت غصہ آیا، اور غصہ سے یہ کہنے لگے کہ چالیس دن کے بچہ نے دنیا میں کہیں باتیں کی ہیں، جو ہم اس لڑکے سے بات چیت کریں۔ قوم کے لوگوں کی سب باتیں سن کر عیسیٰ (علیہ السلام) گود میں سے خود بو اٹھے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں (سب باتوں سے پہلے یہ جملہ اس واسطے فرمایا کہ کوئی ان کو خدا یا خدا کا بیٹا نہ سمجھے اور اس عجیب قدرت کو دیکھ رک اس کی عقل چکر میں نہ آئے) " مجھ کو اللہ نے کتاب عنایت کی ہے، اور مجھ کو نبی بنایا ہے "۔ انجیل ان کو اس وقت تک نہ ملی تھی بلکہ نبوت بھی اور کتاب بھی تیس برس کی عمر میں دونوں ملیں مگر مجازاً انہوں نے یہ بات فرمائی۔ مقصد یہ ہے کہ مجھے کتاب ملنے والی ہے، اور میں نبی ہونے والا ہوں ، اور مجھے اللہ نے برکت والا بنایا ہے، اور مجھ کو تابہ زندگی نماز وزکوۃ کا حکم فرمایا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حال میں علماء نے لکھا ہے کہ زکوٰۃ کے قابل نقد روپیہ جمع کرنا تو درکنار عیسیٰ (علیہ السلام) دوسرے دن کے لئے کوئی کھانے کی چیز نہیں رکھتے تھے۔ اسی واسطے زکوٰۃ کے معنی :" گناہوں سے پاک رہنے " کے ہیں ۔ پھر فرمایا :" پیدا ہونے کے دن، مرنے کے دن، حشر کے دن کی پریشانی سے اللہ تعالیٰ نے مجھ کو امن میں رکھا ہے "۔ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ کلام فرمایا تو لوگوں کو حضرت مریم (علیہا السلام) کی برات و طہارت کا یقین ہوگیا۔ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اتنا فرما کر خاموش ہوگئے۔ اور اس کے بعد کلام نہ کیا، جب تک کہ اس عمر کو پہنچے جس میں بچے بولنے لگتے ہیں۔ اوپر گزرا ہے کہ ماں باپ سے بد سلوکی کرنے والا جنت کے، اور ظلم و زیادتی کرنے والا نیکیوں کو ہاتھ سے کھو دینے کے سبب بڑا بد نصیب ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :" ہر ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو شیطان اس بچے کی پسلی میں اپنی انگلی چھبو کر اس بچہ پر اپنا تسلط جماتا ہے، لیکن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اس تسلط سے امن وامان میں رکھا ہے "۔ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہوشیار ہوگئے، تو وعظ ونصیحت میں مصروف ہوئے، اور رفتہ رفتہ معجزات دکھانے شروع کئے۔ آخرکار ہزاروں آدمی ان کی طرف متوجہ ہونے لگے یہ کیفیت دیکھ کر یہود کو حسد ہوا اور اس عہد کے حاکم کو بدگمان کر کے ان کو گرفتار کرایا، اور قصور یہ ثابت کیا کہ یہ قیصر سے باغی ہیں ۔ وہ لوگ قید کر کے سولی دینے لے چلے۔ خدا کی قدرت سے ان کو اوپر زندہ اور سالم اٹھا لیا، اور ان میں سے ایک کو ان کا ہم شکل کردیا۔ اس کو انہوں نے سولی دے دی۔ اس کے بعد حضرت مریم (علیہا السلام) کا انتقال ہوا۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) ان کے رو برو ہی ہیرودس کے ہاتھ سے شہید ہوچکے تھے۔
Top