Mazhar-ul-Quran - Maryam : 5
وَ اِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَآءِیْ وَ كَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا فَهَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّاۙ
وَاِنِّىْ : اور البتہ میں خِفْتُ : ڈرتا ہوں الْمَوَالِيَ : اپنے رشتے دار مِنْ وَّرَآءِيْ : اپنے بعد وَكَانَتِ : اور ہے امْرَاَتِيْ : میری بیوی عَاقِرًا : بانجھ فَهَبْ لِيْ : تو مجھے عطا کر مِنْ لَّدُنْكَ : اپنے پاس سے وَلِيًّا : ایک وارث
مجھے اپنے بعد اپنے رشتہ داروں ( کی طرف) سے اندیشہ ہے اور میری بیوری بانجھ ہے، پس (اس صورت میں) تو اپنی طرف سے مجھے ایک ایسا جانشین (یعنی بیٹا) عطا کر
حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا علہما السلام کی شہادت حضرت زکریا (علیہ السلام) حضرت مریم (علیہ السلام) کے خالو تھے۔ چناچہ معراج کی صحیح حدیثوں میں اس کی تفصیل آچکی ہے کہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خالہ زاد بھائی ہیں۔ اگرچہ حضرت زکریا بیت المقدس کے متولیوں میں تھے، لیکن بڑھئی کا کام کر کے اپنے ہاتھ کی کمائی سے اپنی گزر کیا کرتے تھے۔ اس لئے ان کے پاس کچھ ایسا مال ومتاع تو نہیں تھا، صرف نبوت کے اپنے خاندان میں چلنے کے لئے لڑکے کی دعا مانگی، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کی اور حضرت یحییٰ پیدا ہوئے۔ یہ نام حضرت یحییٰ کا اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے، اور فرما دیا کہ اس سے پہلے اس نام کا کوئی آدمی دنیا میں نہیں ہوا۔ اس نام کے موافق اگرچہ حضرت یحییٰ دنیا میں میں زیادہ نہیں جئے، اور بنی اسررائیل کے ہاتھ سے شہید ہوئے، اس واسطے گویا ہمیشہ اپنے نام کے موافق زندہ ہیں۔ بنی اسرائیل کا اس وقت کا بادشاہ ایک عورت سے شادی کرنا چاہتا تھا، اور توریت کے حکم سے وہ نکاح جائز نہ تھا۔ اس لئے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) نے اس بادشاہ کو اس نکاح سے منع کیا۔ اس بادشاہ نے ضد کر کے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو شہید کر ڈالا۔ جس جگہ شہید ہوئے تھے، اس جگہ زمین سے خود بخود خون ابلتا تھا۔ اسی عرصہ میں بخت نصر بنی اسرائیل پر چڑھائی کے لئے آیا، اور ستر ہزار آدمی بنی اسرائیل کے قتل کئے جاچکے، تب وہ خون کا ابلنا بند ہوا۔ حاصل یہ ہے کہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے عوض اللہ تعالیٰ نے ستر ہزار ادمی کا قصاص لیا۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) سے بھی بنی اسرائیل منحرف ہوگئے تو حضرت زکریا (علیہ السلام) نے جنگل میں جاکر ایک درخت کی پناہ لی۔ یہ پیڑ شق ہوگیا اور یہ اس کے اندر چھپ گئے۔ بنی اسرائیل بھی ان کی تلاش میں اس پیڑ کے پاس تک پہنچ گئے۔ شیطان ملعون بھی وہاں آن موجود ہوا اور آرے کی صورت بنی اسرائیل کو سمجھائی۔ بنی اسرائیل نے لوہے کا آرا بنایا اور مع پیڑ کے حضرت زکریا کو بیچ سے چیر کر دو ٹکڑے کر ڈالا۔ حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش ایک ہی سال کی ہے۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) پر خالص توریت کی شریعت کا زمانہ ختم ہوگیا۔ اب آگے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت اور توریت اور انجیل کی ملی ہوئی نبوت کا زمانہ ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) کو جو اندیشہ تھا کہ ان کے پیچھے ان کے بھائی بند دین کو بگاڑ دیں گے۔ اس کا ظہور زکریا (علیہ السلام) کی زندگی میں ہی ہوگیا کہ بےدینی کے سبب سے اپنے اور غیر سب نے مل کر دو نبیوں کو شہید کر ڈالا۔
Top