Mazhar-ul-Quran - Maryam : 7
یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ اِ۟سْمُهٗ یَحْیٰى١ۙ لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا
يٰزَكَرِيَّآ : اے زکریا اِنَّا : بیشک ہم نُبَشِّرُكَ : تجھے بشارت دیتے ہیں بِغُلٰمِ : ایک لڑکا اسْمُهٗ : اس کا نام يَحْيٰى : یحییٰ لَمْ نَجْعَلْ : نہیں بنایا ہم نے لَّهٗ : اس کا مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل سَمِيًّا : کوئی ہم نام
(اللہ نے کہا):" اے زکریا ! ہم تجھے ایک فرزند کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہے کہ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی نہیں کیا "
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب حضرت زکریا (علیہ السلام) نے بیٹے کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی درخواست منظور کی اور ان سے کہا کہ اے زکریا (علیہ السلام) ! ہم تجھے بیٹا ہونے کی خوشی سناتے ہیں، اور اس کا نام یحییٰ ہوگا۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے عرض کی کہ اے پروردگار ! میرے لڑکا کہاں سے ہوگا، میری بیوی بانجھ ہے، اور میں بھی بہت بڈھا ہوگیا ہوں پھر مزید اطمینان کے لئے فرشتہ نے کہا :" بیشک حالت تو ایسی ہی ہے، مگر تمہارا پروردگار یوں فرماتا ہے کہ یہ ہمارے نزدیک آسان بات ہے، یعنی ہم نے اسباب بھی پیدا کرسکتے ہیں۔ اور جب وہ چاہتا ہے سبب اور مسبب دونوں کو دم بھر میں پیدا کردیتا ہے "۔ پھر زکریا (علیہ السلام) نے عرض کی :" اے میرے پروردگار میرے واسطے کوئی علامت مقرر کیجئے جس سے مجھ کو یہ معلوم ہوجاوے کہ بچہ کی ولادت کا زمانہ قریب ہے "۔ پھر اللہ نے فرمایا کہ نشانی یہ ہے کہ تم باوجود صحت کے تین دن تک بات نہ کرسکو گے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ جب وہ زمانہ آیا تو حضرت زکریا (علیہ السلام) کو گویائی کی قدرت نہ رہی۔ پس جس روز ان کو امامت کرانی تھی اپنے حجرہ سے باہر نکلے، اور ان سے اشارہ سے کہا کہ تم لوگ بطور خود صبح وشام عبادت کرتے رہو، مجھ میں نماز پڑھانے کی قوت نہیں۔ اس علامت کے تھورے عرصے بعد حضرت یحییٰ (علیہ السلام) تولد ہوئے۔
Top