Mazhar-ul-Quran - Al-Baqara : 211
سَلْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ كَمْ اٰتَیْنٰهُمْ مِّنْ اٰیَةٍۭ بَیِّنَةٍ١ؕ وَ مَنْ یُّبَدِّلْ نِعْمَةَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
سَلْ : پوچھو بَنِىْٓ اِسْرَآءِ يْلَ : بنی اسرائیل كَمْ : کس قدر اٰتَيْنٰھُمْ : ہم نے انہیں دیں مِّنْ : سے اٰيَةٍ : نشانیاں بَيِّنَةٍ : کھلی وَ : اور مَنْ : جو يُّبَدِّلْ : بدل ڈالے نِعْمَةَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : جو جَآءَتْهُ : آئی اس کے پاس فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
(اے محبوب ! ﷺ) بنی اسرائیل سے دریافت کرو کہ ہم نے ان کو کس قدر نشانیاں دیں کھلی کھلی اور جو شخص اللہ کی طرف سے آئی ہوئی نعمت (یعنی کتاب آسمانی) کو بدل ڈالے تو بیشک اللہ سخت عذاب والا ہے
یہود کی بےدینی شان نزول : اوپر یہ تو گزر چکا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی پیدائش اور نبوت سے پہلے یہود اچھی طرح آپ کے اوصاف سے واقف تھے، اور لڑائیوں میں آپ کے وسیلہ سے فتح کی دعا مانگا کرتے تھے۔ اب جب آپ کے تشریف لانے کے بعد وہ آپ کی نبوت کے منکر ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی ﷺ کو مخاطب ٹھہرا کر یہ آیت نازل فرمائی اور فرمایا کہ آپ قائل کرنے کے طور پر ان سے ذرا پوچھیئے تو سہی کہ سلف سے لے کر اللہ تعالیٰ نے ان کو کیا کچھ اپنی قدرت کی نشانیاں دکھلائیں جن میں کی ہر ایک نشانی خود ایک نعمت ہے یا کسی بڑی نعمت کا سبب ہے۔ مثلاً من سلویٰ کا آسمان سے اترنا نشان قدرت الہٰی بھی ہے، اور خود نعمت بھی ہے، اور ہلاکت فرعون ایسی نشانی ہے جو ان کو نعمت اور بادشاہت ملنے کا سبب ہے، اور ان نعمتوں کا پوچھنا ان سے اس غرض سے ہے کہ ان پچھلی نعمتوں کے یاد کرنے سے ان کو یہ بھی یاد آجاوے کہ نبی آخر الزماں ﷺ کا پیدا ہونا بھی ایک ایسی بڑی نعمت ہے جس کی پہلے سے ان کو خود آرزو تھی، اور اس نعمت کے وسیلہ سے اپنے دشمنوں پر فتح کی دعائیں مانگتے تھے۔ اگر اس یاد دہی کا بھی ان پر کچھ اثر نہ ہوا اور اللہ کی اس نعمت کی قدر نہ کریں گے تو یہ یاد رکھیں کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔
Top