Mazhar-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 34
وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ١ؕ اَفَاۡئِنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ
وَ : اور مَا جَعَلْنَا : ہم نے نہیں کیا لِبَشَرٍ : کہ بشر کے لیے مِّنْ قَبْلِكَ : آپ سے قبل الْخُلْدَ : ہمیشہ رہنا اَفَا۟ئِنْ : کیا پس اگر مِّتَّ : آپ نے انتقال کرلیا فَهُمُ : پس وہ الْخٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور (ف 1) ہم نے تم سے پہلے بھی کسی آدمی کے لیے ہمیشہ (دنیا میں) رہنا تجویز نہیں کیا تو کیا اگر تم انتقال فرماؤ پس یہ لوگ (دنیا میں) ہمیشہ رہیں گے
(ف 1) شان نزول : رسول اللہ کے دشمن اپنے ضلال وعناد سے کہتے تھے کہ ہم حوادث زمانہ کا انتظار کررہے ہیں۔ عنقریب ایسا وقت آنے والا ہے حضرت سید عالم کی وفات ہوجائے گی اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا کہ دشمنان رسول کے لیے یہ کوئی خوشی کی بات نہیں ہم نے دنیا میں کسی آدمی کے لیے ہمیشگی نہیں رکھی، موت کا مزہ ہر ایک جاندار کو چکھنا ہے پھر اپنی دنیا کی خوشحالی کے نشہ میں یہ لوگ اپنی موت سے جو غافل ہیں یہ ان کی نادانی ہے دنیا کی خوشحالی اور تنگ دستی تو اللہ نے اس آزمائش کے لیے پیدا کی ہے کہ خوشحالی کی حالت میں کون اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کرتا ہے اور کون ناشکری۔ اسی طرح تنگدستی کی حالت میں کون صبر کرتا ہے اور کون بےصبری، پھر ایک دن سب اللہ تعالیٰ کے روبروحاضر ہونے والے ہیں اس وقت ہر شخص کے عملوں کے موافق جزاوسزا کا فیصلہ ہوگا، حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا خوشحالی کے وقت شکر اور تنگ دستی کے وقت صبر ان لوگوں کا کام ہے جو پکے ایماندار ہیں۔
Top