Mazhar-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 67
اُفٍّ لَّكُمْ وَ لِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
اُفٍّ : تف لَّكُمْ : تم پر وَلِمَا : اور اس پر جسے تَعْبُدُوْنَ : پرستش کرتے ہو تم مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا اَ : کیا فَلَا تَعْقِلُوْنَ : پھر تم نہیں سمجھتے
(پس جواب سے عاجز آئے تو آپس میں )1) وہ لوگ کہنے لگے کہ ان کو جلادو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو اگر تم کو کچھ کرنا ہے
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے آگ میں ڈالنے کا قصہ اور آگ کے گلزار ہونے کا ذکر۔ (1) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نصیحت سے قوم کے لوگ اگرچہ بت پرستی کی برائی کو سمجھ گئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں وہ لوگ دوزخی ٹھہر چکے تھے اس لیے بجائے اس کے وہ لوگ حضرت ابراہیم کی نصیحت کی کچھ قدر کرتے ، انہوں نے حضرت ابراہیم کے بارے میں یہ بات نکالی کہ حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈال دیں اور اپنے معبودوں کا ان سے بدلہ لیں اس لیے کہ تمہارے معبودوں کے ساتھ گستاخی کی ہیے اگر تمہیں کرنا ہے تو کر گزرو، پھر آپ کو ایک مکان میں قید کرلیا اور قریہ کو ثی میں ایک عمارت بنوائی اور ایک ماہ تک بکوشش تمام قسم قسم کی لکڑیاں جمع کیں اور ایک عظیم آگ جلائی جس کی تپش سے ہوا میں اڑنے والے پرندے جل جاتے تھے اور جب حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالنے کا قصد کررہے تھے تو اس وقت آپ کی زبان مبارک پر تھا (حسبی اللہ ونعم الوکیل) جبرائیل نے آپ سے عرض کیا کہ کیا کچھ کام ہے آپ نے فرمایا تم سے نہیں، حضرت جبرائیل نے عرض کیا تو اپنے رب سے سوال کیجئے، فرمایا سوال کرنے سے اس کا میرے حال کو جاننا میرے لیے کفایت کرتا ہے اور جو فرشتہ مینہ برسانے پر تعینات ہے اور اس کو گمان تھا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آگ بجھانے کا ہوگا لیکن اللہ کا حکم کسی ذریعہ کا محتاج نہیں اللہ کے حکم سے خود آگ نے پانی کا کام کردیا، کیونکہ جس طرح پانی سے باغ سرسبز ہوتا ہے اسی طرح آگ سے گلزار قائم ہوگیا اور تمام روئے زمین کی آگ اس وقت بجھ گئی اور اگر اللہ تعالیٰ اس طرح آگ کے ٹھنڈے ہونے کا حکم دیتا جس میں حضرت ابراہیم کو راحت کا ذکر نہ ہوتا توبلاشک اس روز حضرت ابراہیم کو آگ کی ٹھنڈک سے تکلیف اٹھانی پڑتی اس قصہ کے وقت حضرت ابراہیم کی عمر سولہ برس کی تھی غرض یہ کہ آگ کی گرامی زائل ہوگئی اور روشنی باقی رہی اور ان کی مراد پوری ہوئی پھر اللہ تعالیٰ نے مچھروں کے عذاب سے نمرود کو اور اس کے لشکر کو ہلاک کیا۔
Top