Mazhar-ul-Quran - Al-Hajj : 11
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍ١ۚ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَیْرُ اِ۟طْمَاَنَّ بِهٖ١ۚ وَ اِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُ اِ۟نْقَلَبَ عَلٰى وَجْهِهٖ١ۚ۫ خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةَ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ
وَ : اور مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَّعْبُدُ : بندگی کرتا ہے اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر حَرْفٍ : ایک کنارہ فَاِنْ : پھر اگر اَصَابَهٗ : اسے پہنچ گئی خَيْرُ : بھلائی ۨ اطْمَاَنَّ : تو اطمینان پالیا بِهٖ : اس سے وَاِنْ : اور اگر اَصَابَتْهُ : اسے پہنچی فِتْنَةُ : کوئی آزمائش ۨ انْقَلَبَ : تو پلٹ گیا عَلٰي : پر۔ بل وَجْهِهٖ : اپنا منہ ڗ خَسِرَ الدُّنْيَا : دنا کا فساد وَالْاٰخِرَةَ : اور آخرت ذٰلِكَ : یہ ہے هُوَ الْخُسْرَانُ : وہ گھاٹا الْمُبِيْنُ : کھلا
اور (ف 1) بعض لوگ ایسے ہیں کہ جو اللہ کی عبادت کرتے ہیں کنار پر (یعنی دل کے جماؤ سے نہیں) پھر اگر ان کو کوئی (دنیوی) فائدہ پہنچ گیا جب تو چین سے ہیں اور اگر ان کو کچھ تکلیف پہنچ گئی تو منہ کے بل پلٹ گئے (یعنی اپنی کفر کی حالت پر جس سے ) دنیا اور آخرت دونوں کو کھوبیٹھے یہی کھلا نقصان ہے
(ف 1) شان نزول۔ صحیح و بخاری وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ جس کا حاصل یہ ہے کہ مدینہ منورہ کے آس پاس کے کچھ دیہاتی لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں آن کر اسلام لے آتے تھے اور پھر اپنے اپنے گاؤں کو چلے جاتے تھے گاؤں میں چلے جانے کے بعد اگر ان کے مال یا اولاد میں کچھ ان کو بہبودی نظر آتی تھی تو اسلام پر قائم رہتے تھے اور کہتے تھے بلاشک یہ دین اچھا ہے اور اگر اسلام کے بعد اتفاق سے کوئی سختی آجاتی تو اسلام کی مذمت کرنے لگتے تھے اور اسلام سے پھرجاتے تھے ایسے لوگوں کے حق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں جس کا مطلب یہ ہے کہ بعضے دیہاتی لوگوں کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ غنیمت کے مال میں سے، صدقہ خیرات میں کچھ مل جانے کالالچ کرکے دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ہیں اور جب تک ان کا مطلب پورا ہوتا رہتا ہے تو اوپری دل سے مسلمانوں کے ساتھ نماز روزہ میں شریک ہوتے ہیں ، اور جس وقت تک ان کا مطلب پورا نہیں ہوتا اسلام سے پھرجاتے ہیں جس سے ان کا دنیا میں تو یہ نقصان ہے کہ ان کے نصیب سے زیادہ انہیں کچھ ملنے والا نہیں ، اور عقبی کا نقصان وقت مقررہ پر ان کی آنکھوں کے سامنے آجاوے گا پھر فرمایا کہ اسلام سے پھرجانے کے بعد یہ اور ان کے ساتھ مشرک پتھر کی مورتوں کی پوجا کرتے ہیں اتنا نہیں سمجھتے کہ وہ بت بالکل پتھر ہیں تو ان کی کوئی پوجاکرے تو وہ کچھ نفع نہیں پہنچا سکتے، اور نہ پوجا کرے تو ان پتھروں سے کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا ، یہ تو ان بت پرستوں کا دنیاوی حال ہوا عقبی میں ایسے لوگوں کا جو کچھ انجام ہوگا وہ سب کی آنکھوں کے سامنے آجاوے گا نبی ﷺ نے فرمایا ہر شخص کے ساتھ ایک شیطان اور ایک فرشتہ رہتا ہے شیطان ہر وقت اس کو برے کاموں خی اور فرشتہ نیک کاموں کی رغبت دلاتا رہتا ہے اور اگرچہ ان لوگوں کے حق میں وہ بہت برادوست اور رفیق ہے اور جس کی برائی ان لوگوں کو مرنے کے بعدمعلوم ہوگی لیکن دنیا میں ان کو اس کی برائی نظر نہیں آتی۔
Top