Mazhar-ul-Quran - Al-Hajj : 39
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْرُۙ
اُذِنَ : اذن دیا گیا لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کو يُقٰتَلُوْنَ : جن سے لڑتے ہیں بِاَنَّهُمْ : کیونکہ وہ ظُلِمُوْا : ان پر ظلم کیا گیا وَاِنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي نَصْرِهِمْ : ان کی مدد پر لَقَدِيْرُ : ضرور قدرت رکھتا ہے
جن (مسلمانوں) سے کافر لڑتے ہیں ان کے لیے (جہاد) کی اجازت دی گئی کیونکہ اس (ف 1) سبب سے کہ ان پر ظلم کیا گیا اور بیشک اللہ ان کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے
جہاد کا حکم۔ مہاجرین کا ذکر۔ (ف 1) شان نزول : کفار مکہ اصحاب رسول اللہ ﷺ کو روز مرہ ہاتھ اور زبان سے شدید تکلفیں دیتے اور آزار پہنچاتے رہتے تھے اور صحابہ نبی ﷺ کے پاس اسحال میں پہنچتے تھے کہ کسی کا سرپھٹا ہے کسی کا ہاتھ ٹوٹا ہے کسی کا پاؤں بندھا ہوا ہے روزمرہ اس قسم کی شکایتیں حضور کی خدمت میں پہنچتی تھی اور اصحاب کرام کفار کے مظالم کی نبی ﷺ کے دربار میں فریاد کرتے نبی ﷺ یہ فرمایا کرتے کہ صبر کرو مجھے ابھی جہاد کا حکم نہیں دیا گیا ہے جب نبی ﷺ نے مدینہ کو ہجرت فرمائی تو یہ آیت نازل ہوئی جس میں کفار کے ساتھ جنگ کرنے کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ ان پر بہت ظلم کیا گیا ہے اللہ ان کی مدد فرمائے گا اس کے بعد ان لوگوں کی مدد کا ذکر ہے جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے، صرف اتنی بات پر کہ وہ یوں کہتے تھے ہمارا پروردگار اللہ ہے ، آگے جہاد کے جائز ہونے کا سبب بیان فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ہاتھ سے دفع نہ کیا کرے یعنی مسلمانوں کو لڑائی کا حکم نہ دیاکرے تو کسی قوم کی عبادت گاہ زمین پر محفوظ نہ رہتی، یعنی خلوت خانے اور گرجے اور مسجدیں، جن میں اللہ کا ذکر کثرت سے کیا جاتا ہے سب کبھی کے ڈھائے جاچکے ہوتے، پھر فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے نام پر ایسے شہر سے نکالے گئے ہیں اللہ ان کی مدد فرمائے گا اس کے بعد مہاجرین کی تعریف فرمائی کہ دین کے مددگاروں میں یہ اوصاف ہوا کرتے ہیں کہ اگر ان کو قوت حاصل ہو یا سلطنت اور حکومت میسر ہوجائے تو غافل نہ ہوں بلکہ نماز پڑھا کریں اور زکوۃ ادا کریں اور نیک باتوں کا حکم دیا کریں اور بری باتوں سے منع کیا کریں اور سب کاموں کا انجام تو خدا ہی کے اختیار میں ہے اور ہجرت کا ذکر آنے سے نبی ﷺ کے دل پر مشرکین مکہ کے جھٹلانے کا خیال جو گزرا ہے اور اس خیال سے کچھ رنج آپ کو جو ہوا ہے اس رنج کو اس تسکین سے رفع فرمادیا کہ ہمیشہ سے مخالف لوگ انبیاء کو جھٹلاتے رہے ہیں تمہارے ساتھ کچھ یہ نئی بات نہیں ہے اور انبیاء کی قوم کے لوگوں نے انبیاء کو جھٹلایا تھا اس واسطے ان قوموں کا نام لیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کو نہیں جھٹلایا تھا بلکہ فرعون کی قوم نے جس کا نام قبطی قوم ہے حضرت موسیٰ کو جھٹلایا تھا اس لیے جھٹلانے والی قوموں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کا نام نہیں ہے اور جھٹلانے والی قوموں کے ہلاک ہوجانے کا ذکر بھی فرمادیا تاکہ قریش کو تنبیہ ہوجاوے کہ رسول وقت کے ساتھ سرکشی کرنے والوں کا جوانجام سلف سے ہوتا رہا ہے وہی انجام ان کا ہوگا، درحقیقت یہ مضمون علماء ہی کی تسکین کے واسطے فرمایا گیا ورنہ جناب رسالت ماب کے دل پاک اور مستحکم کو تسکین کی کیا حاجت تھی وہاں ازلی تسکین حاصل تھی چونکہ علماء کو یہ بات میسر نہیں اور ان کے دل میں صبر کی وہ وقت نہیں اس واسطے ان کی تسکین فرمائی گئی بظاہر خطاب نبی ﷺ سے ہے اور وہ حقیقت علماء مخاطب ہیں آگے فرمایا پھر ہم نے کافروں کو مہلت دی ، اور عرصہ کی مہلت کے بعد ان لوگوں کو طرح طرح کے عذاب میں پکڑ لیا۔
Top