Mazhar-ul-Quran - Al-Muminoon : 109
اِنَّهٗ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْ عِبَادِیْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَ ارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ
اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا فَرِيْقٌ : ایک گروہ مِّنْ عِبَادِيْ : میرے بندوں کا يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے تھے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے فَاغْفِرْ لَنَا : سو ہمیں بخشدے وَارْحَمْنَا : اور ہم پر رحم فرما وَاَنْتَ : اور تو خَيْرُ : بہترین الرّٰحِمِيْنَ : رحم کرنے والے
بیشک (ف 2) میرے بندوں میں سے ایک فریق جو عرض کیا کرتا تھا کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لائے پس ہم کو بخش دے اور ہم پر رحمت فرما اور تو سب سے بہتر رحم کرنے والا ہے
صبر کے نتیجہ کا ذکر اور مالدار کفار کا غریب صحابہ کرام سے تمسخر۔ (ف 2) شان نزول : یہ آیتیں کفار قریش کے حق میں نازل ہوئیں جو حضرت بلال وحضرت عمار وحضرت صہیب وحضرت خباب وغیرہ اجمعین اصحاب رسول اللہ سے مالدار مشرک چھیڑا کرتے تھے اور طرح طرح کی مسخراپن کی باتیں کیا کرتے تھے کبھی کہتے تھے کہ اسلام کوئی عزت کی چیز ہوتی تو یہ غریب لوگ اسلام لانے میں ہم عزت دار لوگوں سے کبھی قدم آگے نہ بڑھاتے ۔ چناچہ یہ ذکر سورة الاحقاف میں تفصیل سے آوے گا صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت خباب الارت کی روایت گذرچ کی ہے جس میں حضرت خباب کہتے ہیں میں نے اللہ کے رسول سے یہ شکایت کی کہ اب تو مشرکین ہم کو بہت ستاتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اسلام کی ترقی کا جو وعدہ فرمایا ہے ، وقت مقررہ پر ضرور اس کا ظہور ہوگا، وقت مقررہ تک صبر کرنا چاہیے۔ مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ عذاب میں گرفتار وہ لوگ ہیں جو قرآن کی باتوں کو جھٹلاتے تھے اور جو غریب ایماندار لوگ قرآن کی آیتوں کو مانتے تھے ان کو مسخراپن سے ستاتے بھی تھے اور اس ستاتے کے پیچھے اپنے اس انجام کو بالکل بھول گئے تھے جو آج درپیش ہے کہ ہمیشہ کے لیے عذاب میں گرفتار ہیں اور جن غریب ایمانداروں کو یہ مالدار مشرک کی طرح طرح سے دنیا میں ستاتے تھے ، اور اللہ کے رسول کی نصیحت کے موافق وہ غریب اس پر صبر کرچپکے ہو رہتے تھے ان کا انجام بھی ان مشرکوں کی آنکھوں کے سامنے ہے کہ وہ جنت میں بادشاہت کررہے ہیں۔
Top