Mazhar-ul-Quran - Al-Muminoon : 18
وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسْكَنّٰهُ فِی الْاَرْضِ١ۖۗ وَ اِنَّا عَلٰى ذَهَابٍۭ بِهٖ لَقٰدِرُوْنَۚ
وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے اتارا مِنَ السَّمَآءِ : آسمانوں سے مَآءً : پانی بِقَدَرٍ : اندازہ کے ساتھ فَاَسْكَنّٰهُ : ہم نے اسے ٹھہرایا فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَاِنَّا : اور بیشک ہم عَلٰي : پر ذَهَابٍ : لے جانا بِهٖ : اس کا لَقٰدِرُوْنَ : البتہ قادر
اور (ف 1) ہم نے آسمان سے ایک اندازہ کے ساتھ پانی برسایا، پھر ہم نے اسے زمین میں (حسب ضرورت) ٹھہرایا اور بیشک ہم اس (پانی ) کو دور کرنے پر قادر ہیں
(ف 1) ان آیتوں میں فرمایا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو نیک وبد کی جزا وسزا کی حکمت سے پیدا کیا ہے کھیل تماشہ کے طور پر نہیں پیدا کیا اسی طرح مینہ بھی حکمت سے ضرورت کے موافق برستا ہے نہ ایسا بہت برستا ہے جس سے کھیتوں اور عماروتوں کو نقصان پہنچ جاوے اور نہ ایسا تھوڑا کہ کھیتوں اور باغوں کو کافی نہ ہو، زمین ٹھہرنے کا یہ مطلب ہے کہ زمین کے اندر پانی ٹہر کر اناج کے بیج اور میوے کی گھٹلی کو تری پہنچاتا ہے اور تالابوں وغیرہ میں جو پانی ٹھہرجاتا ہے وہ آدمیوں اور جانوروں کے پینے میں آتا ہے پھر فرمایا یہ بات بھی اللہ کی قدرت سے کچھ دور نہیں کہ زمین کے اندر اور تالابوں کے اندر پانی سکھادیاجائے جس سے کھیتی اور جانوروں کو نقصان پہنچ جاوے پس ہم نے تمہارے لیے اس قسم کے پانی کے ذریعے سے کھجوروں ارانگوروں کے باغ پیدا کیے جن میں تمہارے لیے بکثرت میوے ہیں اور اسی پانی سے ایک قسم کا زیتون کا درخت بھی ہم نے پیدا کیا جو کہ طور سینا جہاں موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت اور تورات ملی ہے وہاں بکثرت پیدا ہوتا ہے اور اس کا تیل جلانے کے کام میں آتا ہے اور کھانے والوں ک لیے روٹی سے سالن کے کام آتا ہے ، آگے چوپایوں کے دودھ اور گوشت اور سواری کے کرنے کی نعمتوں کا ذکر فرمایا کر یہ بھی فرمایا کہ جس طرح خشکی میں لوگ چوپایوں پر سواری کرتے ہیں سمندر میں وہی حال کشتی کا ہے۔
Top