Mazhar-ul-Quran - An-Noor : 10
وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ وَ اَنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
وَلَوْلَا : اور اگر نہ فَضْلُ اللّٰهِ : اللہ کا فضل عَلَيْكُمْ : تم پر وَرَحْمَتُهٗ : اور اس کی رحمت وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ تَوَّابٌ : توبہ قبول کرنیوالا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی (تو تم بڑی مضرتوں میں پڑجاتے) اور یہ کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا حکمت والا ہے1
حضرت عائشہ ؓ پر منافقین کی الزام تراشی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی پاکدامنی کا اعلان۔ (ف 1) شان نزول : جس کا مطلب یہ ہے کہ 6 ہجری میں بنی مصطلق کی لڑائی سے واپس کے وقت لشکر کی روانگی سے ذرا پہلے حضرت عائشہ ؓ رفع حاجت کے لیے لشکر کے پڑاؤ سے علیحدہ جنگل میں چلی گئی وہاں اتفاق سے ان کے گلے کا ہار گرپڑا، یہ تو اس ہار کو ڈھونڈنے میں رہیں، اور یہاں لشکر روانہ ہوگیا، روانگی کے وقت اونٹ والوں نے یہ سمجھا کہ معمول کے موافق حضرت عائشہ اونٹ کے کجاوہ میں ہیں اس لیے انہوں نے وہ خالی کجاوہ اونٹ پر لاد دیا، اور لشکر کے اونٹوں کے ساتھ یہ خالی کجاوہ کا اونٹ بھی روانہ ہوگیا، سفر سے پلٹنے کی یہ آخری منزل تھی اس واسطے پچھلی رات کا یہ چلا ہوا لشکر صبح کو مدینہ میں پہنچ گیا ، حضرت عائشہ عنہا کو بہت دیر کی تلاش کے بعد وہ ہار مل گیا تو یہ جنگل سے پڑاؤ میں واپس آئیں اور دیکھا کہ لشکر روانہ ہوگیا ہے تو آپ اسی جگہ بیٹھ گئیں۔ اور خیال کیا کہ میری تلاش میں لشکر ضرور واپس ہوگا لشکر کے پیچھے گری پڑی چیزیں اٹھانے کے لیے ایک شخص رہا کرتا تھا، اس موقع پر حضڑت صفوان ؓ اس کام پر تھے جب وہ آئے اور انہوں نے آپ کو دیکھا تو بلند آواز سے ، انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ آپ نے ان کی آواز سن کر کپڑے سے پردہ کرلیا، انہوں نے اونٹنی بٹھا دی ، حضرت عائشہ عنہا اس پر سوارہوگئیں، اور حضرت صفوان ؓ پیدل چلے اور لشکر میں پہنچ گئے تو منافقین سیاہ باطن نے آپ کی شان میں بہتان لگایا ، بعض کمزور ایمان مسلمان بھی ان کے فریب میں آگئے اور ان کی زبان سے بھی کلمہ بےجاسرزد ہوا، جس سے حضرت عائشہ کو سخت کو صدمہ ہوا اور اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی پاکی بیان کرنے میں یہ آیتیں نازل فرمائیں۔
Top