Mazhar-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 208
وَ مَاۤ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍ اِلَّا لَهَا مُنْذِرُوْنَ٥ۗۛۖ
وَ : اور مَآ اَهْلَكْنَا : نہیں ہلاک کیا ہم نے مِنْ قَرْيَةٍ : کسی بستی کو اِلَّا : مگر لَهَا : اس کے لیے مُنْذِرُوْنَ : ڈرانے والے
اور1 ہم نے کوئی بستی ہلاک نہ کی مگر اس کے لیے ڈرانے والے (پیغمبر پہلے بھیج دییے) تھے نصیحت کے لیے۔
(ف 1) آگے فرمایا کہ جتنی بستیاں منکریں کی ہم نے غارت کی ہیں سب میں نصیحت کے واسطے ڈرانے والے پیغمبر بھیجے۔ اور جب نبی کا کہنا نہ ماناتو عذاب نازل کردیا، اور ہم ظالم نہیں ہیں جو کسی کو بدوں ڈرانے اور بدوں کسی نافرمانی کیے ہوئے پر عذاب بھیج دیں۔ مشرک کہتے تھے کہ یہ شخص کاہن ہے اور کوئی جن اس کے اوپر قرآن لاتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن کو دیو اور شیطاطین لے کر نہیں آتے جیسا کہ تم گمان کرتے ہو، شیاطین میں قرآن لانے کی قابلیت کب ہے اور ان کو کیا قدرت ہے ، کہ آسمان سے قرآن کو سن کر رسول کو پہنچادیں رسول اللہ کے بھیجنے کے بعد شیاطین آسمان کی بات سننے سے موقوف کردیے گئے اب وہاں سے سن کر رسول کو یا کسی اور کو غیب کی بات کیسے بتاسکتے ہیں جاہلیت کے زمانہ میں رسول اللہ سے پہلے ہر کاہن کا جن تابع تھا اور وہ جنات آسمان کے قریب پہنچ کر وہاں کی بات سن آتے اور دوچار باتیں اپنی طرف سے ملا کر کاہنوں سے کہہ دیتے تھے اور وہ کاہن لوگوں کو خبریں دیا کرتے تھے کوئی نہ کوئی بات سچی ہوجاتی تھی وہ لوگ مانتے تھے اور جب رسول اللہ ﷺ نبی ہوئے اس وقت ان کا آسمان پر جانا موقوف ہوگیا، اور جب وہ جانے کا ارادہ کرتے تو آگ کے انگارے ان کی طرف پھینکے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن کا آسمان سے لاکرنبی تک پہنچانا تو کیا معنی وہ تو اب آسمانی بات کو بھی نہیں سن سکتے۔ رسول کی معرفت امت کے لوگوں کو شرک کی برائی جتلائی گئی ہے کہ وہ اکیلا ہے وحدہ لاشریک ہے کوئی اس کا ساجھی نہیں اگر کوئی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو عذاب کرے گا۔
Top