Mazhar-ul-Quran - An-Naml : 19
فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِهَا وَ قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ عَلٰى وَالِدَیَّ وَ اَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَ اَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِكَ فِیْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِیْنَ
فَتَبَسَّمَ : تو وہ مسکرایا ضَاحِكًا : ہنستے ہوئے مِّنْ : سے قَوْلِهَا : اس کی بات وَقَالَ : اور کہا رَبِّ : اے میرے رب اَوْزِعْنِيْٓ : مجھے توفیق دے اَنْ اَشْكُرَ : کہ میں شکر ادا کروں نِعْمَتَكَ : تیری نعمت الَّتِيْٓ : وہ جو اَنْعَمْتَ : تونے انعام فرمائی عَلَيَّ : مجھ پر وَعَلٰي : اور پر وَالِدَيَّ : میرے ماں باپ وَاَنْ : اور یہ کہ اَعْمَلَ صَالِحًا : میں نیک کام کروں تَرْضٰىهُ : تو وہ پسند کرے وَاَدْخِلْنِيْ : اور مجھے داخل فرمائے بِرَحْمَتِكَ : اپنی رحمت سے فِيْ : میں عِبَادِكَ : اپنے بندے الصّٰلِحِيْنَ : نیک (جمع)
پس1 سلیمان چیونٹی کی بات سے مسکرا کر ہنس پڑے اور عرض کی کہ اے میرے پروردگار ! مجھے اس بات کی توفیق عطا کر کہ میں تیرے ان احسان کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ اور یہ کہ میں وہ بھلا کام کروں جسے تو پسند کرے اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے نیک بندوں میں داخل کرلے۔
سلیمان (علیہ السلام) کا ذکر اور ہدہد کا خبرلانا۔ (ف 1) فرمایا ایک بار حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا لشکر ملک شام کے میدان پر سے گزرا کہ جہان چیونٹیوں کے بل تھے اور وہ زمین پر چل رہی تھیں جو چیونٹیوں کا سردار تھا جب اس نے دیکھا کہ حضرت سلیمان کا لشکر آرہا ہے تو اس نے کہا، اے چیونٹیوں سب اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ تاکہ تم پاؤں کی روند میں آجاؤ، یہ بات حضرت سلیمان کو معلوم ہوئی کہ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت سے علوم دیے تھے پھر حضرت سلیمان اس بات سے مسکرا کر ہنسنے لگے، ایک تو اس لیے کہ چیونٹی سلیمان (علیہ السلام) کو بیخبر ی کا الزام لگاتی ہے اس کو یہ معلوم نہیں کہ حضرت سلیمان کو کیا کیا علم دیے گئے دوم اللہ تعالیٰ کی عنایت ورحمت خیال کرکے کہ اس نے مجھے ایسا بلند مرتبہ کیا، نقل ہے کہ حضرت سلیمان اس چیونٹی کو بلاکر اس سے کہنے لگے کہ کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ میرے لشکر سے یہ ممکن نہیں کہ کسی پر ظلم کرے، اس نے کہا، میں نے خوب جانتی ہوں لیکن اپنی قوم کی بڑی ہوں، اس لیے مجھ کو ان کو نصیحت سے چارہ نہیں، پھر انہوں نے فرمایا کہ لشکر تو ہوا میں تھا پھر تم کو کیونکر پائمال کرتا، اس نے عرض کیا کہ میری یہ مراد تھی کہ شاید تمہارے لشکر کے دبدبہ کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی یاد سے باز آئیں، یا یہ مراد تھی کہ تمہاری بادشاہت کی جھاڑ اور خوبی دیکھ کر کہیں ان کا دل نہ للچانے لگے، سو دنیا کی آرزو کرنے لگیں، چیونٹی نے حضرت سلیمان سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو جوچیزیں انعام کی ہیں ان میں سے ایک کا ہی ذکر کرو۔ انہوں نے فرمایا کہ ہوا ہمارے ایسی سواری مقرر کی کہ صبح وشام اس پر دو مہینے کے راستے کی سیر کر آتا ہوں اس نے کہا کہ حضرت سلیمان اس کے معنی بھی سمجھے کیا ہیں یعنی تم کو دنیا کی بادشاہت سے جو کچھ خدا نے عطا کیا ہے وہ مثل ہوا کے بےحقیقت اور بےاصل ہے حضرت سلیمان اس بات کے سنتے ہی اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرنے لگے اے میرے رب مجھے اس بات کی توفیق عطا فرمائی کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر کیا کروں جو تو نے مجھے اور میرے باپ پر انعام عطا کیا ہے اور میں ایسے نیک کام کروں جو تجھ کو پسند آویں اور اپنی رحمت اور کرم سے مجھ کو اپنے نیک بندوں میں داخل کرلے ، یعنی اس جاہ وچشم پر مغرور متکبر نہ ہوں بلکہ اس بلند اقبالی پر اچھے کام کیا کروں۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا صحیح قول ہے کہ ہدہد کی نظر زمین کے اندر دور تک پہنچتی ہے اس لیے بغیر پانی کے جنگل میں جہاں کہیں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا لشکر اترتا تھا تو ہد ہد سے پانی کے نکلنے کا اندازہ پوچھ کر جنات سے پانی کا چشمہ کھدوایاجاتا تھا ایک روز ایسے ہی جنگل میں حضرت سلیمان کا لشکر اترا، اور حاضری کے وقت ہدہد غیرحاضر نکلا۔ اس واسطے ہدہد کی غیرحاضر پر سلیمان (علیہ السلام) کو غصہ آیا، سلیمان نے پرند جانوروں کی سزا یہ مقرر کی تھی کہ قصور وار جانوروں کے پر اکھیڑ کر ان جانوروں کو دھوپ میں ڈال دیا کرتے تھے اسی کو عذاب شدید فرمایا اور زیادہ غصہ کی حالت میں یہ بھی فرمایا کہ اس معمولی سزا سے بڑھ کر ہدہد کو یہ سزا دی جائے گی کہ اس کو ذبح کرڈالا جائے گا تاکہ آئندہ کو کوئی ایسی حرکت نہ کرے، یا کوئی معقول عذر پیش کرے اپنی غیرحاضری کا، پس ہدہد تھوڑی دیر میں آموجود ہوا اور کہنے لگا کہ میں نے وہ چیز دیکھی ہے کہ آپ نے اس کو نہیں دیکھا ہوگا، اور شہر سبا سے آپ کے پاس ایک یقینی پکی خبر لے کر حاضر ہواہوں وہ یہ کہ میں نے ایک عورت دیکھی کہ وہ وہاں کی بادشاہ ہے اور اس کے پاس ہر طرح کا سازوسامان موجود ہے اور اس کے پاس ایک بڑاتخت بھی ہے کہ جس پر وہ حکمرانی کرتی ہے میں نے اس عورت اور اس کی قوم کو اللہ کے سواسورج کو سجدہ کرتے ہوئے پایا اس کا سبب یہ ہوا کہ شیطان نے ان کے کاموں کو ان کے لیے درست وآراستہ کردکھایا جس سے وہ سمجھ گئے کہ اس عبادت سے بہتر کوئی اور عبادت نہیں پھر اس شیطان نے اس قوم کو سیدھے راستے سے روک دیا کہ جس پرچلنے سے ان کو جنت ملتی اور وہ راہ حق پر نہیں چلتے کہ اللہ ہی کو کیون نہ سجدہ کریں کہ جو آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزوں کو ظاہر کرتا ہے۔ آسمانو کی چھپی ہوئی چیزیں ستارے چاند سورج چھپ جاتے ہیں ان کو پھر اللہ تعالیٰ ظاہر کرتا ہے پس یہ لوگ سورج کو کیوں سجدہ کرتے ہیں اور وہی خدا جانتا ہے جو باتیں تم اپنے دلون میں چھپائے رکھتے ہو، یا اپنی زبانوں سے ان کو ظاہر کرتے ہو، وہ اللہ جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور وہ ہی عرش بزرگ کا رب ہے ، وہ عرش عظیم کا مالک ہے ، یہاں تک ہدہد کی گفتگو تھی جو تمام ہوئی۔
Top