Mazhar-ul-Quran - An-Naml : 32
قَالَتْ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِیْ فِیْۤ اَمْرِیْ١ۚ مَا كُنْتُ قَاطِعَةً اَمْرًا حَتّٰى تَشْهَدُوْنِ
قَالَتْ : وہ بولی يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا : اے سردارو ! اَفْتُوْنِيْ : مجھے رائے دو فِيْٓ اَمْرِيْ : میرے معاملے میں مَا كُنْتُ : میں نہیں ہوں قَاطِعَةً : فیصلہ کرنے والی اَمْرًا : کسی معاملہ میں حَتّٰى : جب تک تَشْهَدُوْنِ : تم موجود ہو
بلقیس نے کہا کہ اے1 اہل دربار ! میرے اس معاملہ میں مجھے رائے دو میں کسی معاملہ میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کرتی جب تک کہ تم میرے پاس حاضر نہ ہو۔
(ف 1) جس وقت حضرت سلیمان کا خط بلقیس نے پڑھا تو اس کو یہ تردد ہوا کہ اب کیا کیا جائے کیا اپنی حکومت کو چھوڑ کر اور اپنے دین کو چھوڑ کر حضرت سلیمان کا دین اور اطاعت کی جائے یا حضرت سلیمان سے مقابلہ کیا جائے صلاح مشورہ کے بعد بلقیس نے اپنی ریاست کے لوگوں سے یہ کہا کہ میں اس خط کے جواب میں حضرت سلیمان کے پاس کچھ بڑے بڑے بیش قیمت تحفے بھیجتی ہوں تاکہ اس حال کو دیکھ کر نرم دل ہوجائے مگر حضرت سلیمان کا مقصود تو اس بت پرست بادشاہ زادی کو اسلام میں لانا اور کفر کی بڑائی سے بچانا تھا اس لیے ان تحفوں کو کچھ بھی خیال میں نہ لائے اور فرمانے لگے کہ کیا تم لوگ مال سے میری امداد کرنا چاہتے ہو جو ایک حقیر شے ہے جس کے ہونے سے انسان کے دم میں صدہاقسم کی شہوات نفسانیہ پیدا ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل کرتا ہے پس جو کچھ مجھ کو اللہ تعالیٰ نے ملک اور نبوت اور علم عطا کیا ہے بہتر ہے اس سے کہ جو کچھ تم کو خدا نے دنیا کی ثروت دی ہے پس تمہارے تحفہ کی ہمارے نزدیک نہ کچھ وقعت ہے نہ حاجت۔ تفسیرکشاف میں لکھا ہے کہ بلقیس نے جو تحفے حضرت سلیمان کی خدمت میں بھیجے تھے پانچ سو غلام اور پانچ سولونڈیوں کو خوب آراستہ کیا اور ہزاسونے کی اینٹیں ایک سونے کا تاج جس میں یاقوت اور موتی بیش قیمت جڑے ہوئے تھے اور کچھ مشک اور عنبر اور ایک ڈبہ موتیوں کا اور کہہ دیا کہ جس وقت سلیمان کے دربار جاو تو لحاظ کرنا کہ اگر تم سے غصہ کی آنکھ سے ملیں تو معلوم کرلینا کہ وہ بادشاہ ہیں۔ اگر خندہ پیشانی سے ملیں تو جان لینا کہ بیشک وہ خدا کے رسول ہیں پس جب وہ قاصد ان کے حضور میں پہنچا تو سلیمان اس سے بہت خوشی اور خندہ پیشانی سے ملے اور نہایت عمدہ اچھی طرح سے اس کی مزاج پرسی کی اور تحفہ قبول کرنے سے انکار کیا، اس سے فرمایا کہ جاؤ جاکر کہہ دو کہ حاضر ہوجاؤ اور اگر نہ حاجر ہوگے تو بیشک ہم ان پر ایسا لشکر بھیجتے ہیں کہ جس کی قوت اور کثرت کی وجہ سے وہ طاقت مقابلے کی نہیں رکھتے اور قطعا ہم ان کو اس شہرسبا سے ذلیل اور خوار کرکے نکال دیں گے ۔ جب قاصد تحفہ واپس لے کرگئے اور تمام واقعات سنائے تو اس نے کہا، بیشک وہ نبی ہیں اورہ میں ان سے مقابلہ کی طاقت نہیں اورس نے اپنے تخت اپنے سات محلوں میں سب سے پیچھے محل میں محفوط کرکے تمام دروازے مقفل کردیے ہیں اور ان پر پہرہ دار مقرر کردیے اور حضرت سلیمان کی خدمت میں حاضر ہونے کا انتظام کیا تاکہ دیکھے کہ آپ اس کو کیا حکم فرماتے ہیں اور وہ ایک لشکر گراں لے کر اپ کی طرف روانہ ہوئی جس میں بارہ ہزار نواب، اور ہر نواب کے ساتھ ہزاروں لشکری ، جب اتنی قریب پہنچ گئی کہ حضرت سے صرف ایک فرلانک کا فاصلہ رہ گیا تو حضرت سلیمان نے فرمایا کہ اے اہل دربار تم میں کون ایسا ہے جو بلقیس کا تخت ان کے آنے سے پہلے حاضر کردے، اس سے آپ کا مدعا یہ تھا کہ اس کا تخت حاضر کرکے اس کو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اپنی نبوت پر دلالت کرنے والامعجزہ دکھادیں۔
Top