Mazhar-ul-Quran - Al-Qasas : 65
وَ یَوْمَ یُنَادِیْهِمْ فَیَقُوْلُ مَا ذَاۤ اَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِیْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن يُنَادِيْهِمْ : وہ پکارے گا انہیں فَيَقُوْلُ : تو فرمائے گا مَاذَآ : کیا اَجَبْتُمُ : تم نے جواب دیا الْمُرْسَلِيْنَ : پیغمبر (جمع)
اور1 جس دن خدا ان کافروں کو پکارے گا پس فرمائے گا کہ تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا ؟
(ف 1) ان آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ ان کو اپنے سامنے کھڑا کرکے ان سے پوچھے گا کہ بتلاؤ تم لوگوں نے اللہ کے رسولوں کی فرمانبرداری کی تو ان کے ہوش اڑجائیں گے اور ان کو جواب تک نہ آئے گا یہ توحید اور اطاعت رسول کا سوال گویا آخری سوال ہے ۔ جو میدان قیامت میں خاص اللہ تعالیٰ کے روبرو ہوگا اور یوں تو توحید اور اطاعت رسول کی پرسش آدمی کو قبر میں دفناتے ہی شروع ہوجاتی ہے چناچہ دفنانے والے لوگ ابھی قبرستان سے پلٹ کر بھی نہیں آتے کہ منکرنکیر یہ دوفرشتے مردہ کے پاس آن کر اس سے توحید اور اطاعت رسول کا سوال کرتے ہیں ۔ جو شخص توحید اور اطاعت رسول پر ثابت قدم دنیا سے اٹھا ہے وہ ان کے سوال کا جواب پورا پورا دیتا ہے اور طرح طرح کی راحت ایسے شخص کے لیے اس وقت سے پیدا ہوجاتی ہے اور جو توحید اور اطاعت رسول میں جھوٹا ہے وہ ان کے سوال کے جواب کے وقت ہائے ہائے کرکے رہ جاتا ہے اور اس وقت سے طرح طرح کے عذاب میں گرفتار ہوجاتا ہے غرض تھوڑے دنوں کی دنیا کی زیست ہے اور اس زیست میں کمائی کی چیز توحید اور اطاعت رسول سے بڑھ کر کوئی نہیں اللہ سب کو اس کمائی کا شوق دے، جب سب نبی اور امتیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑے ہوں گے تو پہلے ہر ایک امت کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تم کو تمہارے نبی نے اللہ کی وحدانیت اور شرک سے بچنے کی جو نصیحت کی تو تم لوگوں نے اس نصیحت پر کیا عمل کیا۔ اس کا جواب نہ ہر ایک مشرک کو خود سوجھے گانہ ایک دوسراعزیز قریب کچھ مدددے سکے گا غرض اس موقع پر جنہوں نے مرنے سے پہلے شرک چھوڑ کر نیک عمل دنیا میں کرلیے ان کو نجات کی امید ہوسکتی ہے ورنہ ایسے موقع پر مشرک کو اپنی نجات کی کچھ امید نہ رکھنی چاہیے ۔ روایت ہے کہ مشرکین عرب کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان محمد ﷺ کو کیوں نبی بنایا۔ مناسب تو یوں تھا کہ عرب کے کسی سردار کو نبی بنایاجاتا جیسے ولید بن مغیرہ کہ مکہ کے بڑے بزرگ ہیں یاعروہ بن مسعود ثقفی کہ طائف کے سردار ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کے خام خیال کا جواب دیاتا ہے کہ خدا جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جیسے اس کے پیدا کرنے میں کسی کو دخل نہیں ہے وہ خود مختار ہے کسی کو ان باتوں میں کچھ دخل نہیں اس پر کوئی حکومت کرنے والا نہیں، وہ سب کا حاکم ہے وہ دنیا کے بادشاہوں کی طرح بادشاہ نہیں کہ کسی کی رائے اور مشورہ کی اس کو ضرورت ہو، اس کے سب کام حکمت سے ہیں تم اس کی حکمتوں پر کب مطلع ہوسکتے ہو، جب سب مخلوقات اس کے روبرو کھڑی ہوگی تو ان مشرکوں کو اپنی اس بکواس کا نتیجہ معلوم ہوجائے گا اب آگے رات دن کو نعمت کا احسان جتلایا کہ اگر خدا رات دن کا موجود انتظام درہم برہم کردے وان کے بتوں میں یہ قدرت نہیں کہ اس ہرج کے رفع کرنے میں اللہ کے انتظام کے موافق پھر رات دن قائم کردیں، یہ تو ان کے بتوں اور شیاطینوں کی عاجزی کا حال ہے اس کی مہربانی ہے کہ تم پر اس نے تمہارے لیے رات دن بنائیے ، رات میں تو آرام اور چین کرتے ہو اور دن میں اپنے اللہ کے فضل سے روزی کی تلاش کرتے ہو، یہ احسانات اللہ تعالیٰ نے کیے تاکہ تم اس کا شکر کرو، رات دن میں مختلف عبادات کے ساتھ اور اس کی نعمتوں پر بھی تم اللہ کا شکر کرو۔
Top