Mazhar-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 100
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ یَرُدُّوْكُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ كٰفِرِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِنْ : اگر تُطِيْعُوْا : تم کہا مانو گے فَرِيْقًا : ایک گروہ مِّنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوا الْكِتٰبَ : دی گئی کتاب يَرُدُّوْكُمْ : وہ پھیر دینگے تمہیں بَعْدَ : بعد اِيْمَانِكُمْ : تمہارے ایمان كٰفِرِيْنَ : حالت کفر
اے مسلمانو ! اگر تم اہل کتاب میں سے ایک گروہ کا بھی کہا مانو گے تو وہ تم کو اسلام لانے کے بعد کافر کردیں گے “
مسلمانوں کو کفار سے میل جول کی ممانعت تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ وغیرہ سے روایت ہے کہ انصار کے دو قبیلوں اوس اور خزرج میں اسلام سے پہلے بڑی عداوت تھی۔ آنحضرت ﷺ کے صدقہ ان قبیلوں کے لوگ اسلام لا کر باہم شیر وشکر ہوگئے۔ ایک روز وہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے بڑی محبت کی باتیں کر رہے تھے، شاس بن قیس یہودی جو اسلام کا بڑا دشمن تھا اس طرف سے گزرا اور ان کی باہمی محبت دیکھ کر جل گیا اور کہا کہ یہ لوگ آپس میں مل گئے تو ہمارا کیا ٹھکانا ہے۔ ایک جوان کو مقرر کیا کہ ان کی مجلس میں بٹھ کر ان کی پچھلی لڑائیوں کا ذکر کیا کرے۔ چناچہ اس نے ایسا ہی کیا اور اس کی شر انگیزی سے دونوں قبیلوں کے لوگ طیش میں آگئے اور ہتھیار اٹھا لئے۔ قریب تھا کہ خنریزی ہوجاوے۔ آنحضرت ﷺ یہ خبر پاکر مہاجرین کے ساتھ مسلمانوں کے پاس تشریف لائے اور ان کو سمجھایا کہ اسلام کے بعد زمانہ جاہلیت کی باتیں یاد کرکے آپس میں پھوٹ ڈالنا مناسب نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تم کو اسلام کی عزت دی، جاہلیت کی بلا سے نجات دی، تمہارے درمیان الفت و محبت ڈالی، تم پھر زمانہ کفر کی حالت کی طرف لوٹتے ہو۔ حضور ﷺ کے ارشاد نے ان دلوں پر اثر کیا اور انہوں نے سمجھا کہ یہ شیطان کا فریب اور دشمنی کا مکر تھا۔ انہوں نے ہاتھوں سے ہتھیار پھینک دیئے اور روتے ہوئے ایک دوسرے کو لپٹ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں یہ آیت نازل فرمائی۔
Top