Mazhar-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 172
اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَصَابَهُمُ الْقَرْحُ١ۛؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْهُمْ وَ اتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِیْمٌۚ
اَلَّذِيْنَ : جن لوگوں نے اسْتَجَابُوْا : قبول کیا لِلّٰهِ : اللہ کا وَالرَّسُوْلِ : اور رسول مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَآ : کہ اَصَابَھُمُ : پہنچا انہیں الْقَرْحُ : زخم لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو اَحْسَنُوْا : انہوں نے نیکی کی مِنْھُمْ : ان میں سے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگاری کی اَجْرٌ : اجر عَظِيْمٌ : بڑا
جن لوگوں نے خدا اور رسول کے حکم کو قبول کرلیا بعد اس کے کہ انہیں زخم پہنچ چکا تھا، ان لوگوں کے واسطے کہ نیکی کی اس جماعت میں سے اور پرہیزگاری کی ان کے لئے بڑا ثواب ہے
دوبارہ جنگ کی تیاری جنگ احد سے واپس ہوتے ہوئے ابو سفیان نے آنحضرت ﷺ سے پکار کر کہہ دیا تھا کہ اگلے سال ہماری آپ کے مقام بدر میں جنگ ہوگی۔ حضور نے اس کے جواب میں انشاء اللہ ارشاد فرمایا۔ جب وہ وقت آیا اور ابو سفیان اہل مکہ کو لے کر جنگ کے لئے روانہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں خوف ڈالا، اور انہوں نے واپس ہوجانے کا ارادہ کیا۔ اس موقع پر ابو سفیان کی نعیم بن مسعود اشجعی سے ملاقات ہوئی جو عمرہ کرنے آیا تھا۔ ابو سفیان نے اس سے کہا کہ اے نعیم ! اس زمانہ میں میری لڑائی مقام بدر میں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے ساتھ طے ہوچکی ہے، اور اس وقت مجھے مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ میں جنگ میں نہ جاؤں، واپس چلا جاؤں، تو مدینہ جا اور تدبیر کے ساتھ مسلمانوں کو میدان میں جانے سے روک دے، اس کے عوض میں تجھ کو دس اونٹ دوں گا۔ نعیم نے مدینہ پہنچ کر دیکھا۔ مسلمان جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔ ان سے کہنے لگا : ” تم جنگ کے لئے جانا چاہتے ہو اہل مکہ نے تمہارے لئے بڑے لشکر جمع کئے ہیں، خدا کی قسم تم میں سے ایک بھی پھر کر نہ آئے گا “۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ خدا کی قسم ! میں ضرور جاؤں گا چاہے میرے ساتھ کوئی بھی نہ ہو۔ پس حضور ﷺ ستر سواروں کو ہمراہ لے کر حسبنا اللہ ونعم الوکیل پڑھتے ہوئے روانہ ہوئے۔ بدر میں پہنچے۔ وہاں آٹھ شب قیام کیا۔ مال تجارت ساتھ تھا اس کو فروخت کیا خوب نفع ہوا، امن کے ساتھ گھر واپس آئے دشمن کے مقابلہ کے لئے جرأت سے نکلے اور جہاد کا ثواب پایا۔ (جب کہ دشمن کو سامنے آنے کی جرأت ہی نہ ہوئی) ۔
Top