Mazhar-ul-Quran - Al-Ahzaab : 9
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاۚ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوْا : یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ جَآءَتْكُمْ : جب تم پر (چڑھ) آئے جُنُوْدٌ : لشکر (جمع) فَاَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجی عَلَيْهِمْ : ان پر رِيْحًا : آندھی وَّجُنُوْدًا : اور لشکر لَّمْ تَرَوْهَا ۭ : تم نے انہیں نہ دیکھا وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرًا : دیکھنے والا
اے مسلمانو1 اللہ کی نعمت اپنے اوپر یاد کرو جس وقت تم پر لشکر (خندق کی لڑائی میں) آئے، پس ہم نے ان پر آندھی بھیجی اور وہ لشکر بھیجے جو تمہیں نظر نہ آئے (یعنی ملائکہ) اور اللہ تمہارے کام دیکھتا ہے ۔
غزوہ خندق کابیان۔ (ف 1) یہ خندق کی لڑائی کا قصہ ہے، یہ لڑائی پانچ ھجری میں ہوئی ، اس میں کافر قریب دس ہزار کے چڑھ آئے تھے ابوسفیان اس کا سپہ سالا تھا، اس وقت نبی ﷺ نے مسلمانوں کو خندق کھونے کا حکم دیا مسلمانوں نے بڑی محنت کی اور حضور بھی خندق سے مٹی نکالنے لگے اور کھودنے لگے ، ایک مہینہ دشمن مدینہ کو گھیرے پڑے رہے پھر ایک رات اللہ نے آندھی بھیجی جس کے سبب سے کافروں کا تمام لشکر تباہ ہوگیا کافرناچار ہوکرالٹے چلے گئے اس لڑائی کو جنگ احزاب بھی کہتے ہیں اسی کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مسلمانو اللہ کے احسان کو یاد کرو جس وقت تم پر لشکر کافروں کے آئے پھر ہم نے ان پر آندھی بھیجی اور ایسا لشکر فرشتوں کو پہنچا جس کو تم نہیں دیکھ سکتے تھے اور دشمنوں کے دلوں پر ڈر اور خود ڈال دیا گیا یہ احزاب کا قصہ سورة بقرہ میں بھی گزرچکا ہے کہ ایماندار لوگوں نے ثابت قدرمی سے خندق کھودنے کی جاڑے وربھوک کی اس لڑئی میں جو جوتکلیفیں اٹھائیں ہیں وہ سب اللہ کی نظر میں ہے پھر فرمایا مدینہ کے مشرق کی طرف اونچی بستیاں جو ہیں ادھرے سے قبیلہ غطفان بنی قریش وغیرہ کی فوج، اور مدینہ کی مغرب کی پشت جانب مکہ سے قریش، جب یہ سب دشمن مشرک تمہارے اوپر چڑھ آئے اس وقت کو یاد کرو جب کہ آنکھیں حیرت میں ہوئی تھیں اور کلیجے تمہارے منہ کو آنے لگے تھے اور تم اللہ پر طرح طرح کے گمان کرنے لگے کہ اس مرتبہ ہم نہیں بچیں گے اس وقت مسلمانوں کا امتحان لیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے فرشتے بھیج دیے جنہوں نے کفار کو بہت ہی سختی سے جھنجوڑا اور ان کے دلوں پر دہشت ڈال دی ۔ اور جبکہ منافق اور وہ لوگ جون کے دلوں میں شک تھا کہنے لگے کہ جو وعدہ ہم سے کیا ہے اللہ نے اور اس کے رسول نے فتح کا کیا وہ محض دھوکہ ہی کا وعدہ کررکھا تھا بعض منافقوں نے یہ بھی کہا کہ اے مدینہ والوں تم مقابلہ میں ٹھہر نہ سکو گے اپنے اپنے گھرکو واپس چلو اور ان میں سے کچھ لوگ نبی سے رخصت مانگنے لگے کہ ہمارے گھر بےحفاظت خالی پڑے ہیں اس کہنے سے ان کی غرض گھروں کو بھاگنے کی تھی ، پھر فرمایا یہ بہانہ کرنے والے لوگ اس حالت میں ہیں کہ اگر مدینہ کے ہر طرف سے دشمن آجائیں اور ان کو گھیر لیں پھر ان سے کفر میں داخل ہونے کا سوال کریں تو ضرور یہ لوگ مشرک بن جائیں گے ، ڈر کے سبب سے ایمان کو چھوڑ دیں گے اور پہلے وہ اللہ سے عہد کرچکے تھے کہ لڑائی سے پیٹھ نہ پھیریں گے ، اب بدعہدی کے وبال کا ان کو کچھ خوف نہیں، ان سے کہہ دیاجائے کہ فائدہ نہ دے گا تم کو موت سے بھاگنا کیونکہ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے اگر اس چند روزہ زندگی میں اللہ تم پر کوئی آفت ڈالے تو وہ کون ہے جو تم کو اللہ کی آفت سے بچاسکے بلکہ اس وقت نہ پاویں گے اللہ کے سوا کوئی مددگار اور اللہ تعالیٰ ان پر نظر رحمت رکھے تو کوئی ان کو کسی طرح آفت میں نہیں ڈال سکتا۔
Top