Mazhar-ul-Quran - Faatir : 18
وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى١ؕ وَ اِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ اِلٰى حِمْلِهَا لَا یُحْمَلْ مِنْهُ شَیْءٌ وَّ لَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى١ؕ اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ١ؕ وَ مَنْ تَزَكّٰى فَاِنَّمَا یَتَزَكّٰى لِنَفْسِهٖ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ
وَلَا تَزِرُ : اور نہیں اٹھائے گا وَازِرَةٌ : کوئی اٹھانے والا وِّزْرَ اُخْرٰى ۭ : بوجھ دوسرے کا وَاِنْ : اور اگر تَدْعُ : بلائے مُثْقَلَةٌ : کوئی بوجھ سے لدا ہوا اِلٰى حِمْلِهَا : طرف، لیے اپنا بوجھ لَا يُحْمَلْ : نہ اٹھائے گا وہ مِنْهُ : اس سے شَيْءٌ : کچھ وَّلَوْ كَانَ : خواہ ہوں ذَا قُرْبٰى ۭ : قرابت دار اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں (صرف) تُنْذِرُ : آپ ڈراتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَخْشَوْنَ : ڈرتے ہیں رَبَّهُمْ : اپنا رب بِالْغَيْبِ : بن دیکھے وَاَقَامُوا : اور قائم رکھتے ہیں الصَّلٰوةَ ۭ : نماز وَمَنْ : اور جو تَزَكّٰى : پاک ہوتا ہے فَاِنَّمَا : تو صرف يَتَزَكّٰى : وہ پاک صاف ہوتا ہے لِنَفْسِهٖ ۭ : خود اپنے لیے وَاِلَى اللّٰهِ : اور اللہ کی طرف الْمَصِيْرُ : لوٹ کر جانا
اور (قیامت کے دن) کوئی1 بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کے (گناہوں کا) اور اگر کوئی بوجھل (یعنی گنہگار) اپنا بوجھ بٹانے کو کسی کو بلائے تو اس کے بوجھ میں سے کوئی کچھ نہ اٹھائے گا اگرچہ وہ شخص اس کا قرابت دار ہی ہو، (اے محبوب) تمہارا ڈر سنانا انہیں کو کام دیتا ہے جو بےدیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور جو کوئی (گناہوں سے) پاک ہوا تو اپنے ہی بھلے کو پاک ہوا اور سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
مسلمان اور کافر کی مثال۔ (ف 1) ان آیتوں میں فرمایا کہ کوئی شخص قیامت کے دن کسی دوسرے شخص کے گناہ کا ذمہ دار نہیں اور اگر کوئی شخص اپنے گناہوں میں لدا ہوا کسی دوسرے شخص کو اس بوجھ کے اٹھانے کے واسطے پکارے گا تو وہ شخص اگرچہ اس کا بہت قریب کا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو جیسے باپ یابـیٹا ، جب بھی اسکے گناہوں کا بوجھ اپنے سرنہ لے گا، ان دونوں صورتوں میں بوجھ کہ نہ اٹھانا اللہ کے حکم کی وجہ سے ہے اب قیامت کا نفسانفسی اور قرابت داروں کے غیر ہوجانے کا حال ذکر فرماکر کہ بغیر دیکھے قیامت کی باتوں کا اور خدا کے سامنے کھڑے ہونے کا جن کو خوف ہے ان کو ہی اللہ کے رسول کی نصیحت کچھ کارگر ہوتی ہے دنیا کی محبت میں جو لوگ خدا کے سامنے کھڑے ہونے کو اور قیامت کے حساب وکتاب کو بالکل بھول گئے ہیں ان کے دل پر اس نصیحت کا کچھ اثر نہیں ہوتا، پھر فرمایا کہ اندھا اور آنکھوں والا یعنی جاہل اور عالم برابر نہیں ہوسکتے، اور نہ اندھیرے اور روشنی یعنی کفر اور ایمان برابر ہیں اور نہ چھاؤں اور دھوپ یعنی جنت اور دوزخ برابر ہوسکتی ہے اور زندے اور مردے یعنی مومنین اور کفار بھی برابر نہیں ہوسکے، اللہ تعالیٰ جس کو ہدایت کرنا چاہتا ہے تو اس کو سناتا ہے وہ ایمان لے آتا ہے اور تم ان لوگوں کو جو قبروں میں ہیں یعنی کفار جن کے قلوب مردہ ہیں ان کو نہیں سناسکتے کہ وہ تمہاری بات سن کر تم کو جواب دیں، یہاں پر اس آیت میں قبروالوں سے مراد کفار ہیں نہ کہ مردے، اور سننے سے مراد وہ سننا ہے جس پر راہ یابی کا نفع ہو، مردوں کا سننا احادیث کثیرہ سے ثابت ہے اور شاہ صاحب نے بھی اپنے فوائد میں لکھا ہے کہ قبروالوں یعنی مردوں سے سلام علیک کرو، وہ سنتے ہیں اور بہت جگہ مردے سے خطاب کیا ہے یہ مثالیں بیان فرمایا کہ کہ جس طرح یہ چیزیں ایک سی نہیں ہیں اسی طرح اللہ اور رسول کے فرمانبردار اور نافرمان ایک سے نہیں ہے دنیا میں دونوں فرقے الگ الگ ہیں اور آخرت میں بھی الگ الگ، دوزخ جنت میں ہوں گے تمہارا کام فقط یہ ہے کہ ہر ایک کو عذاب دے ڈراؤ۔
Top