Mazhar-ul-Quran - An-Nisaa : 88
فَمَا لَكُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ وَ اللّٰهُ اَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوْا١ؕ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَهْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا
فَمَا لَكُمْ : سو کیا ہوا تمہیں فِي الْمُنٰفِقِيْنَ : منافقین کے بارے میں فِئَتَيْنِ : دو فریق وَاللّٰهُ : اور اللہ اَرْكَسَھُمْ : انہیں الٹ دیا (اوندھا کردیا) بِمَا كَسَبُوْا : اس کے سبب جو انہوں نے کمایا (کیا) اَتُرِيْدُوْنَ : کیا تم چاہتے ہو اَنْ تَهْدُوْا : کہ راہ پر لاؤ مَنْ : جو۔ جس اَضَلَّ : گمراہ کیا اللّٰهُ : اللہ وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّضْلِلِ : گمراہ کرے اللّٰهُ : اللہ فَلَنْ تَجِدَ : پس تم ہرگز نہ پاؤ گے لَهٗ : اس کے لیے سَبِيْلًا : کوئی راہ
پس تم کو کیا ہوا (اے مسلانو) کہ منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہوگئے اور خدا نے ان کو اوندھا کردیا ان کے برے اعمال کی وجہ سے کیا یہ چاہتے ہو کہ اسے راہ دکھاؤ جسے خدا نے گمراہ کیا۔ اور جسے خدا گمراہ کرتا ہے تو ہرگز اس کے لئے کوئی راستہ نہ پائے گا
جنگ احد سے واپس جانے والوں کا ذکر شان نزول : جنگ احد میں ہزار آدمیوں میں سے تین سو آدمی جب عبداللہ بن ابی منافق کے ساتھ لشکر اسلام سے جدا ہو کر مدینہ کو چلے آئے تو باقی سات سو آدمی جو آنحضرت ﷺ کے ساتھ رہ گئے تھے ان کے دو فرقے ہوگئے تھے۔ ایک فرقہ تو یہ کہتا تھا کہ یہ تین سو آدمی عین وقت پر لشکر اسلام چھوڑ کر ایک منافق کے بہکانے سے گھر جابیٹھے۔ اس واسطے اب وہ لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہوگئے۔ اب موقع پڑے تو ان کا قتل کرنا لازم ہے، اور دوسرا فرقہ کہتا تھا کہ نہیں وہ ہمارے بھائی مسلمان ہیں نہ ہم ان سے لڑیں گے نہ قتل کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے آپس کے اختلاف رفع ہوجانے کی غرض سے یہ آیت نازل فرمائی۔ اور فرمادیا کہ وہ لوگ جب تک تمہارا پورا ساتھ نہ دیں ان کو مسلمان نہ شمار کرنا چاہئے اور ضرور حسب موقع ان کو قتل کرنا چاہئے۔ ان منافقوں میں سے دو طرح کے لوگوں کو مستثنیٰ فرمایا : (1) ایک صلح والوں کے ہم عہد کہ وہ بھی بالواسطہ صلح میں داخل ہیں جس طرح مثلا صلح کے بعد صلح والے قریش اور ان کے ہم عہد بنومدلج (2) دوسرے وہ لوگ جو لڑائی سے عاجز ہوکر اس بات پر قائم ہیں کہ نہ اپنی قوم کی طرف سے مسلمانوں سے لڑیں گے نہ مسلمانوں کی طرف سے کسی سے لڑیں گے۔ جس طرح قبیلہ بنومدلج، کہ نہ مسلمانوں سے لڑتے تھے نہ قریش سے۔ پھر فرمایا جب تک یہ لوگ اس حالت پر قائم رہیں تو یہ اللہ کی ایک مصلحت ہے اس نے ان کو تمہاری لڑائی سے روک رکھا ہے۔ ان کے قریب ایک فرقہ فرمایا کہ جو اپنی جان اور اپنا مال بچانے کے لئے ظاہر میں اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں مگر درحقیقت وہ مشرک ہیں اگر وہ صلح پر قائم نہ رہیں تو ان کو قید کرلو اور مارو جہاں پاؤ۔ کیونکہ ان کی حالت اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک سند ٹھہرادی ہے۔ بعض مفسرین نے آیت فان اعتزلو کم کو فاقتلوا المشرکین سے منسوخ کہا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ عہد و صلح پر قائم بھی رہیں تو ان سے لڑنا چاہئے لیکن عہد وصلح والوں کا حکم مستثنیٰ کے طور پر اوپر گزر چکا ہے۔ اس لئے یہ آیت مستثنیٰ کے حکم میں داخل ہے منسوخ نہیں ہے۔
Top