Mazhar-ul-Quran - Al-Maaida : 83
وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰۤى اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ١ۚ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ
وَاِذَا : اور جب سَمِعُوْا : سنتے ہیں مَآ اُنْزِلَ : جو نازل کیا گیا اِلَى : طرف الرَّسُوْلِ : رسول تَرٰٓي : تو دیکھے اَعْيُنَهُمْ : ان کی آنکھیں تَفِيْضُ : بہہ پڑتی ہیں مِنَ : سے الدَّمْعِ : آنسو مِمَّا : اس (وجہ سے) عَرَفُوْا : انہوں نے پہچان لیا مِنَ : سے۔ کو الْحَقِّ : حق يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے فَاكْتُبْنَا : پس ہمیں لکھ لے مَعَ : ساتھ الشّٰهِدِيْنَ : گواہ (جمع)
اور جب سنتے ہیں وہ جو کچھ نازل ہوا ہے رسول (ﷺ) کی طرف (یعنی قرآن) تو تم ان کی آنکھوں سے دیکھو کہ آنسو جاری ہیں اس سبب سے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا ہے (قرآن کو سن کر) کہتے ہیں :'' اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لائے تو ہم کو حق کے گواہوں میں لکھ لے ''
نجاشی بادشاہ : یہ ان کی رقت قلب کا بیان ہے کہ جو دل میں اثر کرنے والے قرآن شریف کے مضامین سن کر روپڑتے ہیں۔ چناچہ جب نجاشی بادشاہ کی درخواست پر حضرت جعفر ؓ نے اس کے دربار میں سورة مریم کی آیات پڑھ کر سنائیں تو نجاشی بادشاہ اور اس کے درباری جن میں اس کی قوم کے علماء بھی موجود تھے۔ سب زاروقطار رونے لگے۔ اسی طرھ نجاشی کی قوم کے ستر آدمی جو آنحضرت ﷺ کی حدمت میں حاضر ہوئے تھے، حضور سے سورة یا سین سن کر بہت روئے اور کہا کہ آنحضرت صلی اللہ عالیہ وسلم کے نبی اور برحق ہونے کی شہادت ہم نے دی، اور آنحضرت ﷺ کی امت میں داخل ہوئے جو روز قیامت میں تمام امتوں کے گواہ ہوں گے۔ جب یہ لوگ مشرف باسلام ہوکر واپس ہوئے تو یہود نے انہیں ملامت کی، اس کے جواب میں انہوں نے کہا :'' جب حق واضح ہو تو ہم کیوں نہ ایمان لاتے اللہ تعالیٰ ہم کو نیکوں میں داخل کرے گا ''۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا کہ ان لوگوں کی اس نیکی کا اور ان کی طرح جو کوئی نیکی کرے، اس سب کا انجام یہ ہے کہ ایسے لوگ دنیا سے اٹھ جانے کے بعد ہمیشہ جنت میں راحت و آرام کے ساتھ رہیں گے اور جو اس صداقت سے بےبہرہ ہیں ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ دوزخ کی آگ کی تیزی دنیا کی آگ کی تیزی سے انہتر حصہ زیادہ ہے۔
Top