Mazhar-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 31
قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَیُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ
قَالَ : کہا فَمَا خَطْبُكُمْ : تو کیا قصہ ہے تمہارا اَيُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ : اے فرشتو۔ بھیجے ہوؤں
ابراہیم نے1 فرمایا اے فرشتو ! تم (یہاں ) کس کام سے آئے ہو۔
نافرمانی کا انجام۔ (ف 1) جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو معلوم ہوگیا کہ یہ اللہ کے فرشتے ہیں تو حضرت ابراہیم نے ان سے پوچھا کہ کس کام کے لیے زمین پر تمہارا آنا ہوا ہے خاص کر مطلب کیا ہے، فرشتوں نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو قوم لوط پر پتھر برسانے کے عذاب کے لیے بھیجا ہے یہ قوم سرکش فاسق فاجر، مشرک گناہ گار ہے انہوں نے اعمال خبیثہ کرکے اپنے اوپر ہلاک و عذاب واجب کرلیا ہے تفسیر سدی اور تفسیر حسن بصری میں لکھا ہے کہ ان کنکریوں پر خدا کی طرف سے ایک مہر کی سی صورت تھی جس سے وہ کنکر دنیا کے کنکروں سے الگ پہچانے جاتے تھے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ نشان کیے ہئے کنکر تھے یہاں اللہ تعالیٰ نے مختصر طور پر فقط کنکروں کے مینہ کا ذکر فرمایا ہے سورة ہود میں گزرچکا ہے کہ پہلے ان لوگوں کے رہنے کی بستیاں الٹی گئیں اور پھر یہ پتھروں کامینہ برسا۔ قوم لوط کے چار لاکھ آدمی تھے جو اس عذاب الٰہی سے ایک دم میں ہلاک ہوگئے ۔ آگے مفسرین نے اس وجہ سے فرمایا کہ انہوں نے اپنے عمل میں قناعت نہ کی کہ جو ان پر مباح تھا یعنی مرد اور عورت کی مباشرت کی حد سے برھ کر یہ لوگ لڑکوں سے بدفعلی کرتے تھے اور جب حضرت ابراہیم نے یہ ماجراسنا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حضرت لوط کا خیال آیا ان کاس ہنگامہ میں کیا حال ہوگا فرشتوں نے کہا، اے حضرت ابراہیم ہم جب عذاب لائیں گے تو ان گاؤں شہروں کے جتنے آدمی مسلمان ہوں گے ان سب کو نکال دیں گے اس قصہ کو مختصر طور پر فرمایا ہے سورة حجر میں گزرچکا ہے کہ حضرت لوط اور ان کے ساتھ کے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے اس بلا سے بچادیا۔ ہاں حضرت لوط (علیہ السلام) کے رشتہ داروں میں سے ان کی بیوی جو نافرمان لوگوں کی طرف دار تھی وہ عذاب میں پکڑی گئی اور وہاں جو عذاب اتارا تو تختہ تباہ کردیا۔ ایسا حال کردیا کہ آئندہ کو مدت تک عقل والوں ، عبرت پکڑنے والوں، نصیحت سمجھنے والوں کو جو خدا کے عذاب الیم سے دنیا واخرت میں ڈرتے ہیں عبرت ہوجائے پھر کوئی ایسا کام نہ کرے اور لوگ خدا کی طرف متوجہ ہوجائیں۔
Top