Mazhar-ul-Quran - At-Tur : 35
اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَؕ
اَمْ خُلِقُوْا : یا وہ پیدا کیے گئے مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ : بغیر کسی چیز کے اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَ : یا وہ خالق ہیں۔ بنانے والے ہیں
کیا1 وہ لوگ بغیر کسی پیدا کرنے و الے کے پیدا ہوگئے ہیں یا وہ خود اپنے آپ کو پیدا کرنے والے ہیں۔
حضور ﷺ کی مخالفت کرنے والوں کا انجام۔ (ف 1) ان آیتوں میں فرمایا کہ یہ کافر لوگ جب اللہ کے حکم کو نہیں مانتے تو ان کی سرکشی تو یہ جتلاتی ہے کہ یا تو یہ لوگ بغیر کسی پیدا کرنے والے کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں یا انہوں نے اپنے آپ کو پیدا کرلیا ہے یہ لوگ دنیا میں بڑے عقل مند کہلاتے ہیں ان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ کوئی کام بغیر کسی کام کے کرنے والے کے نہیں ہوسکتا، پھر یہ خود بخود کیونکر پیدا ہوگئے اسی طرح پیدا ہونے سے پہلے یہ لوگ بالکل معدوم تھے پھر معدوم شخص اپنے آپ کو کیونکر موجود کرسکتا ہے جب یہ دونوں باتیں عقل کے خلاف ہیں تو اللہ کے رسول بھی تو یہی نصیحت کرتے ہیں کہ جو تمہارا خالق و رازق ہے اس کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرو۔ پھر فرمایا اللہ کے خالق و رازق ہونے کی شہادت میں تو آسمان و زمین ان لوگوں کی آنکھوں کے سامنے موجود ہیں انہوں نے یا ان کے جھوٹے معبودوں یعنی بتوں نے کوئی آسمان و زمین پیدا کیا ہوتولائیں دکھلائیں، اصل یہ ہے کہ ان کے جی میں عقبی کا یقین نہیں ہے ورنہ اپنی عاقبت یہ ایسی خراب نہ کرتے، پھر فرمایا کہ اللہ کے رسول کی بددعا سے ان پر رزق کی تنگی ہوئی اور سخت قحط پڑا وہ تو ان کو معلوم ہے۔ ان کے یا ان کے جھوٹے معبودوں کے اختیار میں اللہ تعالیٰ کے خزانے تھے یا اللہ تعالیٰ کے انتظام کے داروغائی ، ان کو یا ان کے جھوتے معبودوں کو تھی تو پھر انہوں نے اس قحط کو کیوں نہیں رفع کیا، جب ان کے جھوٹے معبودوں سے اتنا بھی نہ ہوسکا تو پھر ان کو اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہرانے کا کیا حق ہے، پھر فرمایا کہ جس شرک کو انہوں نے حق ٹھہرارکھا ہے اللہ تعالیٰ نے جو اپنے رسول پر آسمان سے وحی بھیجی ہے اس میں تو اس کی جابجا مذمت ہے پھر کیا ان کے پاس کوئی آسمان تک سیڑھی ہے جس سے آسمان پر چڑھ کر انہوں نے یہ جان لیا کہ جس طریقہ پر یہ لوگ ہیں وہ حق ہے اگر ایسا ہے تو اس کو ثابت کیا جائے ورنہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی نصیحت کو مان کر بتوں کو چھوڑا جائے پھر فرمایا کہ ان لوگوں کو اپنی عقل پر یہاں تک بھروسہ ہے کہ اپنی عقلی باتوں سے آسمانی وحی کے مقابلہ کو مستعد ہیں کیا عقل مند ایسے ہی ہوتے ہیں کہ اپنی اولاد میں جب بیٹی ہو تو اس کو برا سمجھتے ہیں اور اللہ کے فرشتوں کو یہ لوگ اللہ کی بیٹیاں کہتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ کیا اللہ کے رسول اللہ کا حکم سنانے پر ان لوگوں سے کچھ اجرت مانگتے ہیں کہ اس کے بوجھ سے یہ لوگ اللہ کا حکم سننے سے بھاگتے ہیں پھر فرمایا کہ ان کے پاس لوح محفوظ ہے کہ اس میں سے اللہ کی مرضی کی باتیں یہ لکھ لیتے ہیں اور ان کو اپنا دین ٹھہراتے ہیں اور وحی آسمانی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے رسول پر جو دین کی باتیں اترتی ہیں ان کو نہیں مانتے پھر فرمایا کہ یہ لوگ جو اللہ کے رسول کی وفات کے منتظر ہیں تو کیا اللہ کے رسول کے ساتھ کوئی ایسا فریب کرنے والے ہیں جس سے اللہ کے رسول کو کچھ ضرر پہنچے گا اگر ایسا کریں گے تو یہ بات ان لوگوں کو یاد رہے کہ ان کا وہ فریب ان ہی پر الٹ پڑے گا اللہ کے رسول کو کچھ ضرر اس سے نہ پہنچے گا یہ آیت قرآن شریف کے کلام الٰہی اور نبی ﷺ پر تلواروں سے وار کرنے کا فریب جو سوچا تھا وہ عین ہجرت کی رات کا مشورہ تھا اور یہ آیت ہجرت سے پہلے کی مکی ہے ہجرت کی رات کے بعد جو حصہ قرآن شریف کا نازل ہوا وہ مکی نہیں کہلاتا ، غرض ہجرت کی رات جو کچھ ہونے والا تھا اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو اس کی خبر اس مکی آیت میں پہلے سے ہی دی ہے جو ایک معجزہ ہے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا تھا کہ اللہ کے رسول کے مخالفوں کا فریب ان ہی پر الٹ پڑے گا آخر کو ویسا ہی ہوا کہ بجائے اس کے کہ وہ مخالف لوگ اللہ کے رسولوں پر تلواروں کا حملہ کرتے خود ان ہی مخالفوں پر تلواروں کا حملہ ہوکر وہ سیدھے جہنم کو چلے گئے پھر فرمایا کہ اللہ کے سوا ن لوگوں کا کوئی جھوٹا معبود ایسا ہے کہ جو قیامت کے دن اللہ کے عذاب سے ان لوگوں کو چھوڑا دے پھر آخر کو فرمایا اللہ کی شان ان سب شرک کی باتوں سے بالاتر ہے اور مشرک لوگ اپنی ان شرک کی باتوں کو خمیازہ ایک دن بھگتنے والے ہیں۔
Top