Mazhar-ul-Quran - Al-Hadid : 7
اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْهِ١ؕ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ اَنْفَقُوْا لَهُمْ اَجْرٌ كَبِیْرٌ
اٰمِنُوْا : ایمان لاؤ بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کے رسول پر وَاَنْفِقُوْا مِمَّا : اور خرچ کرو اس میں سے جو جَعَلَكُمْ : اس نے بنایا تم کو مُّسْتَخْلَفِيْنَ : پیچھے رہ جانے والے۔ خلیفہ۔ جانشین فِيْهِ ۭ : اس میں فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : تو وہ لوگ جو ایمان لائے مِنْكُمْ : تم میں سے وَاَنْفَقُوْا : اور انہوں نے خرچ کیا لَهُمْ اَجْرٌ : ان کے لیے اجر ہے كَبِيْرٌ : بڑا
(تم لوگ) اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور (اللہ کی راہ میں) کچھ وہ1 خرچ کرو، جس مال میں تم کو (اس نے) دوسروں کا جانشین کیا ہے ، پس تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور اس کی راہ میں خرچ کیا ان کے لیے بڑا ثواب ہے ۔
(ف 1) سورة کے شروع سے یہاں تک اللہ نے اپنی قدرت اور توحید اور بندوں کے ذراذرا حال سے اپنے واقف ہونے کا ذکر فرما کریہاں سے قریش کو اللہ تعالیٰ کے احکام پر اور اللہ کے رسول کے سچے ہونے پر ایمان لانے اور دنیا کی الفت چھوڑنے اور خدا کی راہ میں کچھ مال خرچ کرنے کی نصیحت شروع کی ہے مفسرین نے لکھا ہے کہ دنیا جس قدر مال ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا ہے اس لیے اصل مالک سب چیزوں کا اللہ تعالیٰ ہے، عارضی طور پر چند روز دنیا کے مال اور دنیا کی چیزوں کے لوگ مالک اور وارچ بن جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ یہ عارضی قبضہ والے لوگ سب مرجائیں گے تو اللہ کا پیدا کیا ہوامال اللہ کے قبضہ میں چلاجائے گا۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ کی حدیث ہے جس میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ آدمی نے جو کچھ کھایا پہنا وہ تو گیا گزرا ہوا جو اللہ کے نام پر دیا وہ عقبی کا ذخیرہ ہے اور جو چھوڑ کر مرا وارثوں کے نصیب کا ہے دنیا میں کوئی تجارت ایسی نہیں کہ جس میں ایک کے ساتھ سو ہوں، عقبی میں صدقہ خیرات کا اجر ایک کا سات سو تک اور کبھی اس سے بھی زیادہ ہے چناچہ اس کا ذکر سورة بقر میں گزرچکا ہے اس لیے عقبی کے اجر کو بڑا فرمایا، قرآن شریف کا کلام الٰہی کا ہونا، اور محمد کا رسول ہونا، اکثر آیتوں میں طرح طرح سے اللہ تعالیٰ نے اہل قریش کا سمجھادیا اس لیے صدقہ خیرات کے ذکر کرکے بعد پھر ایمان کا ذکر دوبارہ فرمایا، تاکہ معلوم ہوجائے کہ بغیر شرک سے باز آنے اور خالص ایماندار ہوجانے کے صدقہ خیرات کا کچھ اجر عقبی میں نہیں مل سکتا، بنی آدم کے دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے سب بنی آدم سے توحید پر قائم رہنے کا عہد جو لیا ہے اس کا ذکر سورة اعراف میں گذرچکا ہے یہاں اس عہد کا ذکر کرکے ساتھ یہ فرمایا کہ تم لوگ اس عہد پر قائم ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس عہد کے یاد لانے کے لیے اپنے رسول کو بھیجا ہے جن پر اپنا کلام نازل فرمایا ہے اور وہ اللہ کے رسول اللہ کا کلام تم لوگوں کو ہر وقت سنا کر وہ عہد تمہیں یاد دلاتے ہیں اور توحید پر قائم رہنے کا راستہ تم کو بتلاتے ہیں تو پھر تم کو اب شرک سے باز آنے اور اللہ تعالیٰ کے وحدہ لاشریک مان لینے میں کیا عذر ہے اب مسلمان ہونے میں اس سے بڑھ کر اور کیا دلائل ہوسکتے ہیں اگر لانا تو ایمان لاؤ۔
Top