Mazhar-ul-Quran - Al-An'aam : 55
وَ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَ لِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ۠   ۧ
وَ : اور كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ : اسی طرح ہم تفصیل سے بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیتیں وَلِتَسْتَبِيْنَ : اور تاکہ ظاہر ہوجائے سَبِيْلُ : راستہ طریقہ الْمُجْرِمِيْنَ : گنہگار (جمع)
اور ہم اسی طرح تفصیل سے آیتیں بیان کرتے ہیں تاکہ مجرموں کی راہ ظاہر ہوجاوے
علم غیب کا ذکر شان نزول : ان آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ قرآن شریف کی آیتوں میں ہر طرح کا مطلب کھول کر سمجھادیا جاتا ہے تاکہ تاکہ اس پر بھی ہٹ دھرمی سے جو کوئی قرآن شریف کی آیتوں کو جھٹلاوے تو معلوم ہوجاوے کہ علم ازلی کے موافق وہ مجرموں کا راستہ چلا، جس سے اس نے اپنی عاقبت برباد کی۔ مشرک لوگ آنحضرت ﷺ سے یہ فرمائش کیا کرتے تھے کہ ایک سال تم ہمارے بتوں کو پوجو اور ایک سال ہم اللہ کی عبادت کریں اس پر گویا آپس کی صلح ٹہرجاوے۔ اسی کو ان آیتوں میں فرمایا کہ اے رسول اللہ کے ! ﷺ تم ان لوگوں سے کہ دو کہ تم لوگوں نے ملت ابراہیمی کو بگاڑ کر بت پرستی کو رواج دے دیا ہے۔ میں اصل ملت ابراہیمی پر ہوں اس لئے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بت پرست کی مناہی ہے۔ کیونکہ اگر میں ایسا کروں گا تو تمہاری طرح بہک جاؤں گا۔ میرے پاس قرآن مجید میں اس بات کی شہادت موجود ہے، تم لوگ بےسند ملت ابراہیمی بگاڑ چکے، اب قرآن کی آیتوں کو بھی جھٹلاتے ہو، اور پھر تم کو عذاب الہی سے ڈرایا جاتا ہے تو ڈھیٹ بن کر اس عذاب کی جلدی کرتے ہو وہ عذاب میرے اختیار میں نہیں ہے وہ اللہ کے اختیار میں ہے، جو خود فیصلہ کردے گا کیونکہ اس کو سب حال معلوم ہے۔ اللہ سچا ہے، اللہ کا کلام سچا ہے، جو کوئی شرک کی حالت میں بغیر توبہ کے مرگیا اس کی نجات کی کوئی صورت نہیں۔
Top