Mazhar-ul-Quran - Al-Qalam : 48
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَ لَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِ١ۘ اِذْ نَادٰى وَ هُوَ مَكْظُوْمٌؕ
فَاصْبِرْ : پس صبر کرو لِحُكْمِ رَبِّكَ : اپنے رب کے حکم کے لیے وَلَا تَكُنْ : اور نہ تم ہو كَصَاحِبِ الْحُوْتِ : مانند مچھلی والے کے اِذْ نَادٰى : جب اس نے پکارا وَهُوَ مَكْظُوْمٌ : اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا
پس3 تم، صبر کرو، اپنے پروردگار کے حکم کے منتظر رہو اور مچھلی والے (یعنی یونس علیہ السلام) کی طرح نہ ہونا۔ جبکہ اس نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ اس کا دل غم سے گھٹ رہا تھا۔
حضرت یونس (علیہ السلام) کا واقعہ۔ (ف 3) اوپرذکر تھا کہ قرآن کی آیتوں کو جو لوگ جھٹلاتے ہیں انہیں اللہ نے کچھ دنوں کی ڈھیل دے رکھی ہے ان آیتوں میں فرمایا اے محبوب ﷺ اس ڈھیل کی مدت میں تم کو صبر اور اللہ کے حکم کا انتظار ضرور ہے ، ایسا نہ ہو کہ بلاانتظار اللہ کے حکم حضرت (علیہ السلام) کا ساتم کوئی جلدی کام کربیٹھو۔ حضرت یونس کا قصہ سورة یونس ، انبیاء اور صافات میں گذرچکا ہے انہوں نے بلاانتظار اللہ کے حکم کے جلدی کا کام کیا۔ وہ یہ تھا کہ جب انکوقوم یونس پر عذاب کے آنے کا حال معلوم ہوگیا تو وہ بستی چھوڑ کر جنگ میں چلے گئے اورادھر قوم یونس کے رونے گڑگڑانے اور راہ راست پر آنے سے وہ عذاب ٹل گیا غرض وقت مقررہ گزرجانے پر عذاب کے نازل ہونے کی خبر جو حضرت یونس کو کچھ نہ لگی توبلاانتظار اللہ کے حکم کے وہاں سے چل دیے، یہی انہوں نے جلدی کی ، اب آگے باقی کا قصہ ہے کہ یہ وہاں سے ایک دریا پر جاکرکشتی میں بیٹھ گئے وہ کشتی وہیں تھم گئی کشتی والوں نے قرعہ ڈالا کہ کس کے روکنے کے لیے یہ کشتی اڑی ہوئی ہے قرعہ میں ان کا نام نکلا، انہوں نے اپنے آپ کو دریا میں ڈال دیا، اور مچھلی نے ان کو نگل لیا۔ مکظوم کے معنی مفسرین نے یہ کیے ہیں کہ وہ غم سے گھٹ رہے تھے اور یہ غم مجموعہ تھا کئی غموں کا۔ ایک قوم کے ایمان نہ لانے کا۔ دوسرا یک عذاب کے ٹل جانے کا اور تیسرا ایک بلا اذن صریح شہر چھوڑ کر چلے آنے کا۔ ایک مچھلی کے پیٹ میں رہنے کا اس وقت انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں یہ دعامانگی، لا الہ الاانت سبحانک انی کنت من الظالمین۔ اور اللہ کے حکم سے اس مچھلی نے ایک چٹیل میدان میں ان کو اگل دیا اللہ تعالیٰ نے وہاں ایک کدو کی بیل پیدا کی اور اس میں ان کو رکھا تاکہ مچھلی کے پیٹ کی گرمی سے ان کے جسم کی کھال اڑ کر جگہ جگہ جو زخم پڑگئے تھے سخت زمین پر لیٹنے سے وہ زخم اور زیادہ نہ چھل جاویں، اسی کو فرمایا کہ اس چٹیل میدان میں اللہ انکو نہ سنبھلاتا ووہاں زخموں کا جلدی اچھا ہوناممکن نہ تھا اور پھر جب یہ تندرست ہوگئے تو اسی قوم کی ہدایت کے لیے ان کو بھیجا۔
Top