Mazhar-ul-Quran - Al-A'raaf : 191
اَیُشْرِكُوْنَ مَا لَا یَخْلُقُ شَیْئًا وَّ هُمْ یُخْلَقُوْنَ٘ۖ
اَيُشْرِكُوْنَ : کیا وہ شریک ٹھہراتے ہیں مَا : جو لَا يَخْلُقُ : نہیں پیدا کرتے شَيْئًا : کچھ بھی وَّهُمْ : اور وہ يُخْلَقُوْنَ : پیدا کیے جاتے ہیں
کیا وہ ایسے کو شریک ٹھراتے ہیں جو نہ بناسکیں کسی چیز کو اور وہ خود ہی بنائے جاتے ہیں
مشرکین کو تنبیہ اور صلہ رحمی کا ذکر ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو یہ تنبیہ فرمائی ہے کہ کیا تم ایسی چیزوں کو معبود ٹھراتے ہو جن میں کسی شے کے پیدا کرنے کی قدرت نہیں ہے بلکہ وہ خود مخلوق ہیں، اور عبادت تو خالق کارساز کو زیبا ہے مخلوق کسی طرح عبادت کی مستحق نہیں ہے۔ ان بتوں سے تو ہزات درجہ تم بہتر ہو کہ تم میں چلنے پھرنے کی طاقت ہے، کھاتے پیتے ہو، بتوں میں کیا قدرت ہے۔ اگر کوئی آکر ان کے ٹکڑے کرڈالے تو یہ کیا اپنا بچاؤ کرسکتے ہیں ؟ پھر جب اپنا اختیار نہیں ہے اور اپنے نفع و نقصان سے یہ بالکل نے خبر ہیں تو تمہاری کیا مدد کرسکتے ہیں اور نہ ان میں سماعت ہے نہ بصارت۔ تم انسان اشرف المخلوقات ہو اور یہ بت پتھر کی مورتیں ہیں۔ اگر تم دعوے میں سچے ہو تو ان کو پکار کر دیکھو، نہ ان کے پیر ہیں جو وہ چل سکیں نہ پکڑ سکتے ہیں، نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں۔ پھر آنحضرت ﷺ کو خطاب کرکے فرمایا کہ ان مشرکوں سے کہو کہ تم اپنے معبودوں کی دھمکیاں دے کر کیا ڈراتے ہو۔ جہاں تک ہوسکے کمی نہ کرو اپنے سارے معبودوں کو پکار کر مکر کرلو، اور جو کچھ جی میں آئے کر گزرو مجھے اس سے کچھ ضرر نہیں پہنچ سکتا۔ کیونکہ میرا ولی اور حمایتی خدائے واحدہ لا شریک ہے۔ جس نے اپنے رسولوں پر کتابیں اتاری ہیں وہ میری حمایت کرے گا۔ اور نیک لوگوں کی بھی وہی حمایت کرتا ہے۔ تمہارے معبود میں خاک کسی قسم کی قدرت نہیں ہے، نہ ان کو اپنی ذات کی بھلائی کی قدرت ہے نہ تمہیں کچھ ان سے مدد مل سکتی ہے، نہ سن سکتے ہیں۔ ظاہر میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمہیں دیکھ رہے ہیں بلکہ جو شخص ان تصویروں کی طرف نظر کرتا ہے اسے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ بت ادھر ہی نظر کئے ہوئے ہیں، مگر در حقیقت ان کی آنکھ تو ہے نہیں جو وہ کچھ دیکھ سکیں۔ اہل مغازی نے یہاں ایک قصہ بیان کیا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ مدینہ منورہ میں ہجرت کرکے آئے تو دو نوجوان معاذ بن عمرو الجموح اور معاذ بن جبل آپ کے پاس آکر مسلمان ہوگئے۔ یہ دونوں راتوں کو جاکر بتوں کو توڑتے تھے تاکہ ان کی قوم کو عبرت ہو۔ ایک اور شخص عمرو بن الجموح اپنی قوم میں سردار شمار کیا جاتا تھا اس کے ہاں ایک بت تھا جس کو وہ روز خوشبو مل کر عبادت کرتا تھا۔ یہ دونوں رات کو جاکر اس بت کو اوندھا کردیتے اور نجاست مل دیتے تھے۔ عمرو بن الجموح صبح آکر دیکھتا تھا اور پھر دھو دھلا کر اس کو آخوشبو ملتا تھا۔ ایک روز اس نے اس بت کے پاس تلوار رکھ دی تاکہ جو شخص اس بت کو تکلیف دینے آتا ہے اس سے بدل لے لیوے، مگر اس بت سے کیا ہوسکتا تھا۔ ایک روز دونوں نے اس بت کو کھینچ کر ایک مردار کتے کے پاس ڈال دیا۔ پھر ایک روز پیر میں رسی باندھ کر اس کو کنوئیں میں لٹکا دیا۔ آخر عمر بن الجموح کے دل میں خیال گزرا کہ یہ دین محض ڈھکو سلا ہے، یہ بت کچھ بھی قدرت نہیں رکھتے اور توبہ کرکے مسلمان ہوگیا اور ایسا پکا مسلمان ہوا کہ شہادت کا درجہ پایا۔ جنگ احد میں شہید ہوگیا۔
Top