Mazhar-ul-Quran - Al-A'raaf : 58
وَ الْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُهٗ بِاِذْنِ رَبِّهٖ١ۚ وَ الَّذِیْ خَبُثَ لَا یَخْرُجُ اِلَّا نَكِدًا١ؕ كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّشْكُرُوْنَ۠   ۧ
وَالْبَلَدُ : اور زمین الطَّيِّبُ : پاکیزہ يَخْرُجُ : نکلتا ہے نَبَاتُهٗ : اس کا سبزہ بِاِذْنِ : حکم سے رَبِّهٖ : اس کا رب وَالَّذِيْ : اور وہ جو خَبُثَ : نا پاکیزہ (خراب) لَا يَخْرُجُ : نہیں نکلتا اِلَّا : مگر نَكِدًا : ناقص كَذٰلِكَ : اسی طرح نُصَرِّفُ : پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیتیں لِقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّشْكُرُوْنَ : وہ شکر ادا کرتے ہیں
اور جو اچھی زمین ہے اس کا سبزہ نکلتا ہے اللہ کے حکم سے، اور جو زمین خراب ہے اس میں سبزہ نہیں نکلتا ہے مگر ناقص دیر سے نکلنے والا، ہم یوں ہی طرح طرح سے آیتیں بیان کرتے ہیں اس قوم کے لئے جو احسان مانیں
حضرت نوح (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت شعیب (علیہ السلام) تک چند صاحب شریعت انبیاء کے قصے ان آیتوں میں آنحضرت ﷺ کی تسکین وتشفی کے ارادہ سے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں تاکہ آپ کو یہ اطمینان ہوجاوے کہ سرکش قوموں پر انبیاء کے جھٹلانے کا ہمیشہ سے جس طرح وبال پڑا ہے اگر اہل مکہ مکرمہ مارے گئے اور آپ نے ان کی لاشوں پر ایک ایک کا نام لے کر فرمایا کہ خدا کے وعدے کو تم نے دیکھ لیا اور بقیہ اہل مکہ مکرمہ فتح مکہ پر اسلام لے آئے۔ اگر قضا وقدر میں ان کا ایمان لانا نہ ٹھہرا ہوتا تو پچھلی امتوں کی طرح ضرور سب اہل مکہ ہلاک ہوجاتے۔ سو اس تشفی کے لئے ان قصوں میں آنحضرت ﷺ کی نبوت کی دلیل ہے، کیونکہ ان پڑھ شخص بغیر تائید غیبی کے اس طرح سینکڑوں برس پیشتر کا تاریخی حال ممکن نہیں کہ بیان کرسکے۔ پھر تاریخی حال بھی ایسا کہ اس تاریخی حال سے آئندہ نتیجہ بھی جو بیان کیا گیا وہی واقع ہوا۔ بھلا یہ غیب دانی بغیر غیب دان حقیقی کے کس طرح حاصل ہو سکتی ہے۔ توحید کی تعلیم اور شرک کا مٹانا حضرت نوح (علیہ السلام) کی نبوت سے شروع ہوا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) حضرت ادریس (علیہ السلام) کے پڑپوتے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی پیدائش اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی وفات میں ایک سو چھبیس برس کا فاصلہ ہے۔ طوفان کے بعد تین سو برس تک حضرت نوح (علیہ السلام) زندہ رہے۔
Top